|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2018

 کراچی: فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کی جانب سے متحدہ عرب امارات میں کھربوں کی جائیداد رکھنے والے پاکستانیوں کی حتمی فہرست مرتب کرلی ہے۔

متحدہ عرب امارات میں غیرقانونی طور پر جائیداد بنانے والے ہزاروں پاکستانی کاروباری شخصیات پر ایک مرتبہ پھر تحقیقات کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔

ایف آئی اے کراچی کی جانب سے سال 2015 میں قیمتی زرمبادلہ کی تیزی سے بیرون ملک منتقلی کو روکنے کے سلسلے میں بیرون ملک خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں جائیداد کی خریداری کیلیے کھربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے والے پاکستانی شہریوں کے خلاف پاکستان اور دبئی میں سرگرم پراپرٹی ڈیلرز اور ڈیولپرز سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پرتحقیقات کا آغازکیاگیا تھا۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 15/28 درج کی گئی تھی تاہم ابتدا میں 50 اور بعدازاں مجموعی طورپر100 پاکستانی کاروباری(کراچی اور لاہور سے تعلق رکھنے والی) شخصیات کی متحدہ عرب امارات میں جائیداد ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے کی تحقیقات کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ فارن ایسٹس ڈیکلیریشن ایکٹ 1972 کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری کو بیرون ملک پراپرٹی خریدتے وقت اسٹیٹ بینک کو آگاہ کرنا لازمی ہے۔ ایف آئی اے نے اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک سے رابطہ کیا توانکشاف ہوا کہ اس قانون کے تحت تاحال ایک بھی پاکستانی نے بیرون ملک جائیداد خریدنے سے آگاہ نہیں کیا ہے۔

ایف آئی اے حکام نے وزارت خارجہ کے ذریعے اپنے پاس موجود فہرست کے مطابق پاکستانی شہریوں کی جائیداد کی تحقیق کیلیے دبئی حکام سے رابطہ کیا تاہم تاحال3 سال گزرجانے کے باوجود دبئی حکومت نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

یہ وہ مقام تھا جہاں ایف آئی اے کی تحقیقات کا سلسلہ رک گیا، تحقیقات تقریباً 3 سال تک تعطل کا شکار رہی اور سینئر پولیس افسر بشیر میمن کی جانب سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انکوائری کو دوبارہ فعال کرنے کا عندیہ دیا گیا تاہم اس سلسلے میں حائل قانونی رکاوٹوں، متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایف آئی اے کو تاحال معلومات فراہم نہ کرنے اور کرپشن کا ایک نیا دروازہ کھولنے کے خدشات کے پیش نظراس سلسلے میں غوروخوص جاری تھا کہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو جامع تحقیقات کرنے کی ہدایت کی۔

اس دوران متحدہ عرب امارات میں اثاثے رکھنے والی کاروباری شخصیات کی تعداد تقریباً 4 ہزار سے تجاوز کرچکی تھی تاہم جب مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات میں شامل ناموں کی فہرست تیار کی گئی تو اب تک مجموعی طور پر1200 سے1500 کے قریب پاکستانی کاروباری شخصیات کے نام حاصل ہوئے۔

ایف آئی اے نے اس سلسلے میں لاہور میں 31 اور کراچی میں 22 نئی انکوائریاں رجسٹرڈ کیں اور اینٹی کرپشن سرکل کے ہر آئی او کو3 انکوائریاں دی گئیں ۔ ہر انکوائری میں 13 کاروباری شخصیات کے نام رکھے گئے۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے کاروباری شخصیات کو 2 مرتبہ نوٹسز جاری کرچکی ہے تاہم کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کو دوبارہ فعال کرکے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے تاجروں اور صنعتکاروں کو ہراساں کیا جارہا ہے اور کرپشن کا ایک نیا دروازہ کھولا گیا ہے۔ بیرون ملک جائیداد رکھنے والوں میں بیوروکریٹس اور سیاستدان سرفہرست ہیں۔

سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور لیڈنگ امپورٹرہارون اگر نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں کی یو اے ای، برطانیہ اورامریکا میں جائیداد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، ہرسیاسی جماعت کے چیدہ چیدہ رہنماؤں نے بڑے پیمانے پر بیرون ملک پراپرٹی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے تاہم تاجر اور صنعتکاروں کی گردن پتلی ہے اس لیے کسی بھی قسم کے احتساب کا آغازان سے کیا جاتا ہے اور بعد ازاں مک مکا کرکے معاملے ہی دبادیا جاتا ہے۔

ہارون اگر نے کہا کہ سیاستدان اور بیوروکریٹس تو ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرتے ہیں، ان کی جائیداد چوری، ڈکیتی اور کرپشن کے پیسے سے خریدی جاتی ہیں تاہم ان کے خلاف کبھی بھی کارروائی نہیں کی جاتی۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایف آئی اے نے حوالہ اورہنڈی کے نام پر کاروباری افراد کو بڑے پیمانے پر ہراساں کیا اور اب ایف آئی اے کیلیے کرپشن کا ایک نیا در کھول دیا گیا ہے۔