|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2018

گزشتہ روز عیسیٰ نگری کے علاقے میں ایک چرچ کے قریب موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 3زخمی ہوئے، واقعہ کے بعد مسیحی برادری نے بروری روڈ پر احتجاج کیا اور بعدازاں پُرامن طور پر منتشر ہوگئے۔ 

دہشت گردی کے اس واقعہ کو صرف مسیحی برادری سے نہیں جوڑا جاسکتا کیونکہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں اس سے قبل بھی شدت پسندوں نے متعدد دہشت گردی کے واقعات کئے جس میں شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کونشانہ بنایا گیا۔ اس قسم کے واقعات ایک بڑا چیلنج بنتے جارہے ہیں۔ 

اب ضروری یہ ہے کہ کس طرح ان واقعات کو روکنے کیلئے سیکیورٹی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ دہشت گرد یہاں انتشار اورخوف پھیلانا چاہتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان تفریق پیدا کرتے ہوئے نفرت کو ہوا دی جائے۔ 

بلوچستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں تمام اقوام، مذاہب اور فرقوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اور انہی روایات کی وجہ سے بلوچستان ایک گلدستہ کی مانند اپنی پہچان رکھتا ہے مگرگزشتہ چند برسوں کے دوران شدت پسندی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اس سے قبل ہزارہ برادری کو اسی طرح ہدف بنایاگیا متعدد حملے ان پر کئے گئے جس کے نتیجے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جاں بحق ہوئے اور بہ مجبوری ان کی سیکیورٹی سخت کردی گئی جس سے وہ اپنے علاقوں تک محدود ہوکررہ گئے ۔

اسی طرح زائرین جو ایران جاتے ہیں ان کی سیکیورٹی بھی انتہائی سخت ہوتی ہے تاکہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہ ہوسکے۔ اب مسیحی برادری کو نشانہ بنایاجارہا ہے لیکن اب دارالخلافہ کوئٹہ کو مکمل سیکیورٹی زون نہیں بنایاجاسکتا اس سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے حوالے سے غلط تاثر جائے گا اور یہ مستقل حل بھی نہیں ہے۔ 

موجودہ حکومت نے کوئٹہ سیف سٹی کے ذریعے امن وامان کی صورتحال بہتربنانے سمیت دہشت گردوں تک رسائی ممکن بنانے کیلئے اس پروجیکٹ پر جلد عملدرآمد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ سیف سٹی پروجیکٹ کو کم مدت میں ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام سمیت امن وامان کی صورتحال میں بہتری آسکے۔ 

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے کون ملوث ہے جس کا بارہا اظہار صوبائی حکومت سمیت سیکیورٹی حکام کرچکے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ بلاتاخیر سرحدوں کی نگرانی سخت کی جائے کیونکہ دہشت گرد سرحد پارسے آکر دہشت گردی کی واردات کرتے ہیں۔

بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک اہم وجہ غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی بھی ہے جو یہاں کسی نہ کسی حوالے سے دہشت گردوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان عناصر کا ہمارے یہاں کی بدامنی ، معیشت کی تباہی اور عدم استحکام سے کوئی سروکار نہیں ،وہ صرف اپنے مفادات کومد نظر رکھ کر یا چند روپوں کی خاطر یہ کام کرتے ہیں یاپھر برائے راست انہی گروہوں سے ان کا تعلق ہے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ 

اس وقت بلوچستان میں شدت پسندی سب سے بڑاخطرہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے سخت سے سخت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ بلوچستان آنے والے وقت میں خطے میں ترقی وخوشحالی کیلئے اہم کردار ادا کرنے جارہا ہے جو ملک میں معاشی انقلاب برپا کرے گا اور یہاں کی پسماندگی کے خاتمے کا سبب بنے گا۔اس لئے ضروری ہے کہ یہاں پر امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے تمام وسائل کو بروئے کارلایا جائے۔