وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ ماہی گیری کے شعبہ سے ہزاروں بلوچستانیوں کا ذریعہ معاش وابستہ ہے ہم مقامی ماہی گیروں کے روزگار اور حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
خاص طور پر غیرقانونی ماہی گیری کا تدارک ضروری ہے جس کے لئے پاکستان نیوی، میری ٹائم اور دیگر متعلقہ اداروں کا تعاون ضروری ہے ۔ بلوچستان حکومت نیوی کی معاونت سے ساحلی علاقوں میں لوگوں اور ماہی گیروں کی فلاح وبہبود کے لئے اقدامات یقینی بنائے گی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ساحلی علاقوں کی ترقی ،ماہی گیروں کی فلاح وبہبود اور ان کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے حکومت تمام دستیاب وسائل بروئے کار لارہی ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ سے آنے والے ٹرالروں کے غیر قانونی شکار سے مچھلیوں کی افزائش نسل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دوسری جانب مقامی ماہی گیروں کا روزگاربھی متاثر ہورہا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ غیرقانونی فشنگ کی روک تھام کے لئے مؤثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستا ن نے یہ واضح کردیا کہ ان کی حکومت غیر قانونی ماہی گیری اور خطر ناک وائر نیٹ کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دے گی اور ہر حال میں ان کی حکومت غریب ماہی گیروں کے جائز مفادات کا نہ صرف تحفظ کرے گی بلکہ سمندری حیات کو بھی ہر حال میں تحفظ دیا جائے گا کیونکہ یہ آئندہ نسلوں کی امانت ہے اور اس کا تحفظ ناگزیر ہے۔
ان کلمات سے صاف اور واضح نظر آتا ہے کہ حکومت بلوچستان کے ان معاملات میں ضرور تحفظات ہوں گے ۔ 1960ء کی دہائی میں سندھ کے ایک افسر نے کوریا اور چینی کمپنیوں سے مل کر گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کا لائسنس حاصل کر لیا ،درجنوں ٹرالر بلوچستان کے ساحل پر پہنچ گئے اور انہوں نے وہ تباہی مچائی جس کی مثال ماہی گیری کی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔
مچھلی صرف چند فٹ تک موجود ہوتی ہے گہرے سمندر میں مچھلی یا سمندری حیات کا وجود ہی نہیں ہوتا یہ سمندری حیات ساحل کے قریب ہوتا ہے۔ اس لئے درجنوں کی تعداد میں ساحل کے قریب ان ٹرالروں نے مکمل جھاڑو پھیر دیا اور سمندری حیات کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا، انہو ں نے بل ٹرالرز Trawlers Bull استعمال کیے اور دونوں طرف سے ٹرالر چلا کر سمندری حیات کا خاتمہ کردیا۔
مچھلی نام کی کوئی چیز ان سے بچ نہ سکی ان ٹھگوں نے بلوچستان کے ساحل پر مادر شپ Ship Motherکھڑی کردی۔ اس پر پروسیسنگ کرکے مچھلی اورجھینگا براہ راست دوسرے ملکوں کو روانہ کیا۔ وفاقی حکومت کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی اورنہ ہی کمپنی نے حکومت کو کوئی ٹیکس ادا کیا اور مچھلی مفت میں لے گئی۔ صرف انہوں نے لائسنس فیس ادا کی اور سرکاری افسروں کو رشوت دی ۔
چونکہ مچھلی اور دوسری سمندری حیات گہرے سمندر میں موجود ہی نہیں ہے اس لئے یہ بڑے بڑے ٹرالر مچھلیوں کا شکار کرنے ساحل کے قریب آئے تھے ،اس وقت صوبائی ساحلی حدود صرف تین میل تک تھا یہ وہاں آ کر اس تین میل کی پٹی میں شکار کرتے رہے۔
اس کی وجہ سے بعض خطر ناک حادثات بھی پیش آئے ،آئے دن غریب اور چھوٹے بلوچ ماہی گیروں کے جال تباہ ہوجاتے اور ٹرالرز ان کو روند ڈالتے تھے، کئی بار چھوٹی ماہی گیری کشتیاں بھی ٹھکر اکر تباہ ہوگئیں ان کو معاوضہ نہیں ملا۔
اس طرح کورین‘ چینی ‘ جاپانی بلکہ یہاں تک کہ بھارت کے ٹرالرز افسروں کو رشوت دے کر گہرے سمندر کے نام پر ساحلی پٹی میں شکار کرتے رہے۔بعض دفعہ بھارتی غیر ملکی ٹرالرز کو بھی استعمال کرتے تھے اور جاسوسی بھی کرتے تھے۔
بہتر تو یہ ہے کہ ماہی گیری کو صرف اور صرف صوبائی محکمہ رہنے دیا جائے اور اس میں مداخلت نہ کیا جائے۔صوبائی حکومت کو کام کرنے دیں کیونکہ یہ اپنے لوگوں کا بہتر طریقے سے خیال رکھ سکتی ہے ، یہاں کے لوگوں کی آہ وفغاں اسلام آباد تک کبھی پہنچی نہیں اور نہ ہی آئندہ اس کی امید کی جاسکتی ہے۔
اورصوبائی حکومت کو بھی چائیے کہ اپنی استعداد کار بڑھائے،تمام شعبوں سمیت ماہی گیری سے بھی کرپٹ عناصر کو دور رکھے تاکہ غیر قانونی ٹرالنگ کا تدارک ہوسکے، اور غریب ماہی گیر دو وقت کی روٹی کے لیے دربدر ہونے سے بچ جائیں۔