|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2018

کوئٹہ:  بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( پجار) کے مرکزی چیئرمین گہرام اسلم بلوچ ،سیکرٹری جنرل حمید بلوچ، صوبائی صدر علاؤ الدین بلوچ، ڈاکٹر طارق بلوچ ، گورگین بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کرپشن ، بد عنوانی کا گڑھ بن چکا ہے انتظامیہ صرف اور صرف رقم بٹورنے میں مصروف ہیں۔

21اکیسویں صدی یعنی سائنس ٹکنالوجی کی صدی میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں حالانکہ تعلیم کو انسان کی تیسری آنکھ کا درجہ دیا گیا تو اس بنیاد پر دنیا نے جو ترقی کے منازل طے کیے وہ صرف و صرف تعلیم کے بل بوتے پر کیے ہیں ۔لیکن بد بختی ہماری یہ ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیئے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہا رانہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا انہوں نے کہا ہے کہ جس سر زمین سے ہمارا اور آپ کا تعلق ہے جو وہ اپنی جغرافیائی اہمیت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ، اس کے علاوہ 760 کلومیٹر ساحلی پٹی پر مشتمل صوبہ ہے ۔

لیکن بد قسمتی کہیں ایک سوچ سمجھے سازش کہیں کہ کرم عشرے سے بلوچستان کے عوام کو تمام تر انسانی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے اور بلوچستان میں نفرت کی فضا قائم کر کے قوم پرست قوتوں کو تقسیم کرنے کی گھناؤ نی سازش رہی ہے جس کے نتیجے میں بلوچستا ن کے محکوم عوام کی زندگیاں نہیں بدلی ہیں۔

21اکیسویں صدی یعنی سائنس ٹکنالوجی کی صدی میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں حالانکہ تعلیم کو انسان کی تیسری آنکھ کا درجہ دیا گیا تو اس بنیاد پر دنیا نے جو ترقی کے منازل طے کیے وہ صرف و صرف تعلیم کے بل بوتے پر کیے ہیں ۔لیکن بد بختی ہماری یہ ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیے ہیں یہ ہماری قوم کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں ہے قومیں وہ ترقی کرتی ہیں جہنوں نے اپنے درسگاہوں میں تعلیمی ماحول کو بحال کرنے اور جدید دنیا کی بدلش ہوگی۔ 

سیاسی ، معاشی ، ثقافتی اور سماجی صورتحال کے پیشِ نظر تعلیمی نصاب مرتب کیا اور جدید درس وتدریس کا طریقہ کار اپنایا ۔یہ ہمارے معاشرے کے لیے اور تباہی و بر بادی کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے تعلیمی درسگاہوں میں وہ فرسودہ نظام تعلیم ک قائم ہے جو جدید دنیا سے ہم آہنگ نہیں ہے ہمیں پرانے طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ 

تب ہم جا کر جدید چیلنجیز کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور دنیا کی ترقی کے ساتھ کھڑا ہوسکتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں واحد پبلک یونیورسٹی آف بلوچستان ہے جس سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں اس جامعہ سے ہماری قوم کی تقدیر بدلے گی اور یونیورسٹی کی توسطہ سے ہم ترقی کے منازل طے کرکے جدید دنیا سے مقابلہ کریں گے۔ 

لیکن کافی سالوں سے جامعہ بلوچستان کی ریکنگ بڑھنے کے بجائے پیچھے جا رہی ہے جو ہمارے معاشرے کی تباہی کا نشاندگی کرتی ہے ۔ یونیورسٹی بجائے علم و زانت باٹنے کے یہاں سے طلباء کو کاغذ کا ٹکڑا تھمادیا جاتا ہے اور جامیہ بلوچستان کی انتظامیا اپنے من مانی و دبد عنوانی اور میرٹ کی پامالی کے ساتھ ساتھ اپنے بینک بیلنس بنانے میں مصروف عمل ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ چند ماہ پہلے طلباء تنظیموں کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی کے تعلیمی مسائل کے حل کی خاطر اور بدعنوانی میرٹ کی پامالی کے خاتمے کے لیے بھوک ہڑ تالی لگائی تھی اور بلوچستان کے طلباء سراپا احتجاج تھے کہ یونیورسٹی انتظامیہ تعلیم دشمن پالیسوں پر عمل پیراہے اورفیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کر کے غریب طلباء و طلبات کے لیے تعلیمی دروازے بند کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ 

اور انتظامیہ کرپشن کرنے میں مصروف ہے تو اس دوران بلوچستان اسمبلی میں اس مسئلے پر بحث ہوتی تو اسمبلی اراکین کے دوران ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔طلباء کے مسئلے کو ایڈریس کرکے انکا حل نکالا جائے جو نئی کمیٹی نے مسائل کا نشاندہی کر کے شفارت یونیورسٹی انتظامیہ کو بھیج دیئے تھے لیکن انتظامیہ نے مقدس ایوان کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا کر ان شفارت کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے۔جس سفارات پہ تاحال عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں جامعہ بلوچستان میں خالی آسامیوں کوپر کرنے کے لئے ٹیسٹ لیا گیا ہے جوکہ شعبہ زولوجی میں افتخار بلوچ نامی امیدوار نے ٹیسٹ ٹاپ کیا ہے لیکن انٹرویومیں دانستہ طور پر اْس کو نہیں بلایا گیا اور اپنے منظور نظر امیداوار کو لیکچرار تعینات کر دیا گیا ہے۔

علاوازیں بات بتاوں آپ ساتھیوں کو کہ چیف منسٹر لیپ ٹاپ اسکیم جو کہ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے لییعلان کیا گیا تھا وہ لیپ ٹاپ اسکیم وائس چانسلر صاحب نے اپنے اسٹاف میں تقسیم کردیئے ہیں ۔

انہوں نے کہا ہے کہ جب طلباء تنظیمیں احتجاج کر رہے تھے کہ یونیورسٹی مسائلوں کا گڑھ بن چکاہے تو انتظامیہ اور ان کے ترجمانی کرنے والے لوگ اس بات سے انکاری تھے جامعہ بلوچستان میں اس طرح کا کوئی مسئلہ در پیش نہیں ہے اور طلباء کا استحصال نہیں کیا جا رہا ہے اور کوئی بد عنوانی نہیں ہورہی ہے ۔

اب یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلباء کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کروائے گئے یہ منفی حربہ اس لیے اپنا یا گیا تاکہ یونیورسٹی انتظامیہ کے کالے کرتوں پر پردہ ڈال سکیں اور طلباء اپنے حقوق کے حصول کی آواز سے دستبردار ہو جائیں ۔

آڈٹ معائنہ رپورٹ جاری ہواجو کہ طلباء تنظیموں کی آواز کا تصدیق کرتی ہے کہ یونیورسٹی میں بد عنوانی ہوگی ہے اور کہاں میرٹ کی پامالی ہوتی ہے جس میں ساتھیوں کے سامنے مختصر پیش کرتا ہوں۔