|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2018

قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں تین صوبوں ، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے وفاقی پی ایس ڈی پی کو مسترد کر تے ہوئے واک آؤٹ کیا اور ضمنی بجٹ پیش کر نے کا اعلان کر دیا۔ 

سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے کہا ہے کہ پی ایس ڈی پی میں چھوٹے صوبوں کا خیال نہیں رکھا گیا ، ہمارے واک آؤٹ کے بعد اجلاس کا کورم ٹوٹ گیا، اگر ہمارے واک آؤٹ کے بعد کچھ ہوا تو وہ غیر آئینی ہے، ہم نے جو سفارشات دی تھیں وہ نہیں مانی گئیں اور اپنی مرضی کی اسکیمیں پی ایس ڈی پی میں شامل کی گئیں۔ 

پی ایس ڈی پی میں گزشتہ سال کی اسکیموں کو نئی اسکیموں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے،ہم کسی بھی صورت اگلی حکومت کا بجٹ نہیں مانیں گے، کسی کا بھی حق نہیں بنتا کہ وہ اگلی حکومت کیلئے بجٹ بنائے، گزشتہ پانچ سالوں کے پانچ ہزار ارب کے پی ایس ڈی پی کے بجٹ میں سے صرف 320ارب بلوچستان کو دیئے گئے، 320ارب سے بلوچستان کو کیسے ترقی دی جاسکتی ہے۔ 

گزشتہ روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت وزیراعظم آفس میں قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی شرکت کی ۔صوبوں کے سالانہ بجٹ اور ترقیاتی پروگراموں پر تحفظات کے باعث سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

واک آؤٹ کے بعد تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ نیشنل اکنامک کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، جس کے 13ممبر ہوتے ہیں اور وزیراعظم اس کے سربراہ ہوتے ہیں جبکہ صوبوں کے 8نمائندے ہوتے ہیں۔

اس وقت تین صوبوں کے 6نمائندے یہاں بیٹھے ہیں،آج اجلاس میں 9لوگ موجود تھے، جس میں پی ایس ڈی پی پر بحث کی گئی،ہم نے اپنا موقف رکھا کہ چاروں صوبوں کا خیال رکھا جائے،مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں تو وزیراعلیٰ پنجاب موجود تھے لیکن قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں نہیں تھے۔

ہم نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے کہا کہ وہ یہ زبردستی منظور کروانا چاہتے ہیں ہم اس کو ووٹ نہیں کرتے،یہ آئینی بات تھی لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ کی منظوری کی ضرورت ہی نہیں، ہم نے کہا کہ پھر ہمارے بیٹھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں اور پھر ہم نے وہاں سے واک آؤٹ کر دیا ۔ 

اچھی بات یہ ہے کہ تینوں صوبوں کے وزراء نے بہترانداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور بہتر مؤقف کے ساتھ محکوم صوبوں کی آواز بلند کی ۔ ضمنی بجٹ پیش کرنے کی صورت میں تینوں صوبوں کے ایگزیکٹیو اپنے موجودہ ترقیاتی کاموں پر زیادہ توجہ مرکوز کرینگے جس کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جوترقیاتی اسکیمیں جاری ہیں ۔

ان کو مکمل کیاجائے جس سے درپیش مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ مگر جس طرح کا رویہ صوبوں کے ساتھ اپنایاجارہا ہے یہ قطعاََ مناسب نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی انہی رویوں کی وجہ سے چھوٹے صوبے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ 

اس وقت اگر ہم ترقی دیکھ رہے ہیں اس میں پنجاب سب سے آگے ہے یہاں تک کہ جتنے بھی سی پیک کے تحت معاہدے ہوئے ہیں ان میں بھی ترجیح پنجاب کو دی جارہی ہے جبکہ بلوچستان جو سی پیک کی بنیاد ہے یہاں اب تک کوئی منصوبہ اپنی تکمیل تو کجا افتتاح کے مراحل میں بھی داخل نہیں ہوا ۔

اور گوادر جو اس وقت گیم چینجر کا مرکزی کردار ادا کرنے جارہا ہے وہاں پانی تک ناپید ہے ، کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے بعد مسئلہ کو حل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر گوادر کے عوام عرصہ دراز سے پانی کی فراہمی کیلئے سراپااحتجاج ہیں، افسوس کہ اب تک اسے حل نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب وفاقی حکومت بھی بلوچستان کے ساتھ فنڈز کے حوالے سے تعاون نہیں کررہا جس سے بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں ۔ ضمنی بجٹ پر وزرائے اعلیٰ کا احتجاج حق پر مبنی ہے جو ملک کے مظلوم عوام کی آواز ہے اسے نظرانداز کرنا زیادتی ہوگی۔