|

وقتِ اشاعت :   April 27 – 2018

چمن : پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چےئرمین اور رکن قومی اسمبلی محمودخان اچکزئی نے چمن کے مختلف علاقوں کلی بوستان ،کلی ڈبری اور کلی جلال حسین زئی میں اپنے دورے کے دوران مقامی قبائلی معتبرین اور پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان میں فوج اوران کے اداروں کے خلاف نہیں بلکہ ہم آئین وقانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی ، قوموں کی برابری کی اصولی جمہوری موقف پر ہمیشہ قائم رہے ہیں اورملکی سیاست اور نظام حکومت میں ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود کے دائرہ میں رہ کر اپنی ذمہ داریوں کو سرانجام دینا ہوگا۔ 

لہٰذا کسی بھی ادارے کی جانب سے سیاست میں مداخلت ، سیاسی پارٹیاں بنانے اور توڑنے کے غیر آئینی ، غیرجمہوری طرز عمل ملک کے وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام،عوام کی ترقی وخوشحالی اور ملکی استحکام کو تباہ وبرباد کرنے کے مترادف ہے۔ 

اور اس ملک کی ترقی و خوشحالی کا راز اسی میں ہے کہ سیاست میں فوج یا خفیہ ادارے مداخلت نہ کریں اور تمام اقوام کو ان کے ساحل وسائل پر ان کوہی اختیار دیا جائے اور اس ملک میں اگر کسی کو غلام رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے تو یہ کھیل غلط ہے اور یہ بندہونا چائیے۔ 

محمودخان اچکزئی نے کہاکہ پاک افغان بارڈر پر خاردار باڑھ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ دہشت گردوں کو باڑھ لگانے سے نہیں روکا جاسکتا ہے اور دہشت گردی اس وقت ختم ہوسکتی ہے جب پاکستان اور افغانستان مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کریں تب جاکریہ دونوں ہمسائیہ ممالک ایک دوسرے کے بہترین دوست اوربھائی بن سکتے ہیں ۔

مگر ایسا کھبی نہیں ہوگا کہ آپ دوسروں کے گھر میں پتھرپھینکتے ہو اور اُن سے پھول نچاور کرنے کی توقع رکھتے ہو یہ بے وقوفی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ آنے والے الیکشن میں عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی تو اس کے خطرنا نتائج برآمدہونگے اور عوام کی رائے کا احترام کرنا سب پر لازم ہے کیونکہ عوام کی رائے کا جب ماضی میں احترام نہیں کیا گیا تو یہ ملک بدقسمتی سے دولخت ہواتھا اب ہم دوبارہ اس تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتے۔

محمودخان اچکزئی نے کہا پشتون تحفظ موومنٹ کے جوان ہمارے ہی اپنے بچے ہیں منظور پشتون کا جس سے گلہ ہے ان کو منظور پشتون کے ساتھ مذاکرات کرکے ان کے جائزشکایات کا ازالہ کیا جانا چائیے کیونکہ ان کے مطالبات اتنے بڑے یا مشکل نہیں ہے جس کووفاقی حکومت اور اس کے متعلقہ محکمے اور ادارے پورا نہیں کرسکتے ۔ 

محمودخان اچکزئی نے کہا کہ قیام پاکستان میں پشتونوں کی قربانیاں سب سے زیادہ ہے مگر اس ملک میں پشتونوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے جس کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ جب کسی گھر میں بھائیوں کے درمیان ناانصافی ہوگی ۔

تو وہ گھر نہیں چل سکتا وہ گھر ہی ٹوٹ جاتا ہے مگر پاکستان میں پشتونوں کے ساتھ مسلسل ناانصافیاں ہورہی ہیں اور پورے قبائلی علاقے کو پہلے دنیا جہاں کی دہشت گردوں کا اڈہ بنایا گیا پھر دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر پشتونوں کو تباہ و برباد کیا گیا اور پشتونوں کی قتل عام کو کوئی حساب کتاب نہیں ہے ۔

دنیا میں لوگ جانور اور چرند وپرند کا شکار بھی حساب سے کرتے ہیں مگر پاکستان میں بے حساب پشتونوں کا بلاوجہ قتل عام جاری ہے اور اس بے انتہاء ظلم کے خلاف تحریکوں کا شروع ہونا فطری عمل ہے۔ 

محمودخان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں چند ماہ قبل خفیہ ادارے کے ایک برگیڈئیرنے صوبائی حکومت ختم کرکے نئی حکومت بنائی جس کا نام لیکر میں نے پارلیمنٹ کے فلور پر آرمی چیف اور چیف جسٹس سے تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر اس پر خاموشی اختیار کی گئی اس کا مطلب یہی ہواکہ ہمارے خفیہ اداروں نے اپنا کام چھوڑکر سیاست کررہے ہیں اور کھلے عام کررہے ہیں ۔

الیکشن کمیشن نے سینٹ الیکشن میں ووٹ خریدنے اور ووٹ بیچنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور ہمارے ایک ممبرنے جب پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی تو ہم نے ایکشن لیتے ہوئے ان کو پارٹی سے خارج اوراسمبلی کی رکنیت ختم کردی دوسری سیاسی پارٹیوں کو بھی ایسا ہی کرنا چائیے۔