حکومتی واپوزیشن جماعت کے ارکان گزشتہ روزاسمبلی اجلاس میں وفاق پر برس پڑے۔مشترکہ قرار داد پرارکان کا کہنا تھا کہ صوبہ بلوچستان میں کثیر الجہتی غربت کی شرح80فیصد سے زائد ہے جبکہ گوادر ،لسبیلہ ، کیچ اور پنجگورمیں غربت کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی بناء پر ان کا شمار شدید غربت سے متاثرہ اضلاع میں ہوتا ہے جبکہ گزشتہ دس سالوں سے گوادر میں اربوں مالیت کے جائیداد کی خریدو فروخت ، گوادر ڈیپ سی پورٹ اور دیگر تعمیراتی و ترقیاتی سرگرمیاں جاری ہیں ۔
لیکن اس سے ملحقہ اضلاع کو براہ راست کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔ قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ ضلع گوادر میں سمندری وسائل ، پورٹ جائیداد کی خریدوفروخت ، رسل و رسائل تیل و گیس اور دیگر وفاقی و صوبائی نجی کاروبار پر 15فیصد مکران ڈویلپمنٹ ٹیکس عائد کرنے کے سلسلے میں فوری طور پر قانون سازی کرنے کو یقینی بنائے تاکہ مذکورہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کومذکورہ اضلاع میں غربت کے خاتمے ، تعلیم ، روزگاراور آمدورفت کے ذرائع بہتر بنانے پر خرچ کیا جاسکے ۔
ارکان کا کہنا تھا کہ کراچی میں پورٹ بننے کے بعد کے پی ٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے توسط سے کراچی میں ترقیاتی کام ہوئے، گوادر پورٹ اتھارٹی بنانے کی یقین دہانی تو کرائی گئی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس وقت پینے کا پانی سب سے اہم مسئلہ ہے جو گوادرمیں درپیش ہے ،لوگوں کے شدید احتجاج پرحکومت وقتی اقدامات تو اُٹھاتی ہے مگر مسئلے کا مستقل حل نہیں نکالا جاتا۔
وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ گوادر سمیت پورے بلوچستان کے لئے مختلف شعبوں میں قانون سازی ہونی چاہئے ۔ وفاقی حکومت گوادر اور سی پیک سمیت دیگر حوالوں سے ہمارے تحفظات دور کرے۔ سی پیک کا تو شور بہت ہے اور چین سے فنڈز بھی لئے گئے مگر بلوچستان میں سی پیک کے حوالے سے کوئی منصوبہ نہیں شروع نہیں کیا گیا۔ جو سڑکیں تعمیر کی گئیں وہ بھی دس سے بارہ سال پرانے منصوبے ہیں ۔
چند ایک شاہراہیں سابق آرمی چیف کی دلچسپی کی وجہ سے مکمل ہوئیں۔ چار ماہ کی وزارت اعلیٰ کے دوران یہ بات زیادہ محسوس ہوئی کہ وفاق بلوچستان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ پانچ ہزار ارب روپے کا اعلان کرکے صرف 280ارب روپے دیئے گئے، اگر نو فیصد کے حساب سے بھی فنڈز دیتے تو ہمیں ایک ہزار ارب روپے ملنے چاہئیں تھیں۔
ماضی میں بلوچستان میں جاری انسرجنسی اور خراب صورتحال کے باوجود وفاق نے بلوچستان کی ترقی پر توجہ نہیں دی، ہر بار ہمارے منصوبوں کو بجٹ میں شامل کرکے ان پر عمل کرنے کی بجائے آئندہ بجٹ میں انہیں نئے منصوبوں کے طور پر شامل کیا گیا۔
بلوچستان میں نئی بننے والی حکومت کے وزیراعلیٰ نے متعدد بار اس بات کا گلہ کیا ہے کہ سی پیک جیسے اہم منصوبہ میں بلوچستان کی ترقی کہیں نظر نہیں آتی۔ اس غیر مناسب رویہ پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی وفاق کے خلاف اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کرایا مگر اس اب تک کوئی اثر نہیں ہوا۔
وفاقی حکومت کا یہ رویہ شاید سیاسی انتقام ہوسکتاہے کیونکہ نئی بننے والی صوبائی حکومت سے مرکز نالاں دکھائی دیتا ہے اور اس کااظہار ن لیگ کے رہنماء برملاکرتے آئے ہیں اس لئے یہ سوال بھی سیاسی حلقوں میں اٹھایاجارہا ہے اگر وفاقی حکومت سیاسی بنیادوں پر بلوچستان کو نظرانداز کررہی ہے تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے ۔ بلوچستان اس ملک کا اہم اکائی ہے اور سی پیک اسی صوبہ سے جڑا ہے ۔
بلوچستان میں پہلے سے ہی احساس محرومی موجود ہے اور تاریخ ا س بات کی گواہ رہے گی کہ سیاسی بنیادوں پر موجودہ وفاقی حکومت نے بلوچستان کی ترقی میں روڑے اٹکائے۔ وفاق کی بلوچستان کی ترقی میں عدم دلچسپی مزید مسائل کو جنم دے گی اس لئے ضروری ہے کہ مرکز اپنے رویہ میں تبدیلی لائے اور بلوچستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے یہاں کے عوام کا حق انہیں حقیقی بنیادوں پر دے تاکہ بلوچستان کی پسماندگی میں خاطر خواہ کمی آسکے۔
بلوچستان کی ترقی میں وفاق کی عدم دلچسپی
وقتِ اشاعت : April 30 – 2018