|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2018

کوئٹہ میں ہفتہ کے روز نامعلوم مسلح افراد نے جمال الدین افغانی روڈ پر ایک دکان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق ہوئے، یہ دونوں چچا اور بھتیجا تھے جن کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے تھا جبکہ اتوار کے روز جان محمد روڈ پر ایک دکان پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے تین افراد جاں بحق جبکہ دو زخمی ہوئے۔ 

دونوں واقعات الگ الگ نوعیت کے ہیں ۔ ہزارہ برادری کو عرصہ دراز سے دہشت گردی کا نشانہ بنایاجارہا ہے جس کے خلاف ان دنوں ہزارہ برادری سراپااحتجاج ہے ،حالیہ واقعات کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا ہے ۔ احتجاجی کیمپ ختم کرنے کیلئے گزشتہ شب وزیرداخلہ میر سرفرازبگٹی مذاکرات کیلئے گئے مگر بات چیت میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ 

اس موقع پر میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ کوئٹہ شہر کے حالات کو دوسرے علاقوں سے نہ جوڑا جائے ، پشتون تحفظ موومنٹ سے اس کو جوڑاجارہا ہے جو کہ غلط ہے۔ میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پُرعزم ہیں اس دوران اہم دہشت گردوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے سیکیورٹی فورسز اپنے جانوں کا نذرانہ دیکر کوئٹہ سمیت صوبے میں امن قائم کررہی ہیں ایسی صورت میں احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہم خود ان کے پاس چل کر آئے ہیں جبکہ اس سے قبل بھی ہزارہ برادری کونشانہ بنایاگیا اور طویل دھرنا کئی دنوں تک جاری رہا مگر اس وقت کے حکمران حال پرسی کرنے بھی نہیں آئے، ہمارا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ان کے پاس آئیں ۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ماضی کی نسبت کسی حد تک ٹارگٹ کلنگ میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اور دہشت گردوں کے اہم کارندہ بھی گرفتار ہوئے جنہیں باقاعدہ میڈیا کے سامنے پیش بھی کیا گیاجنہوں نے متعدد دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے نام بھی لئے جو پاکستان میں دہشت گردی پھیلارہے ہیں۔ 

اس سے قبل گزشتہ ہفتہ کے دوران سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ اور گاڑی کو بیک وقت دو مقامات پر نشانہ بنایاگیا جس کے نتیجے میں 6 اہلکار شہید جبکہ 10 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ دہشت گردبلوچستان میں بدامنی پھیلاکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 

دہشت گردی کو کسی ایک مسلک سے جوڑنا بھی قطعاََ غلط ہوگا کیونکہ دشمن عناصر یہاں فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کرانے کی سازش کرنا چاہتے ہیں تاکہ بلوچستان میں انتشار کی کیفیت پیدا کی جائے ۔ بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کبھی بھی فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات نہیں ہوئے بلکہ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ طریقہ سے کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں ۔

موجودہ وقت کا تقاضہ ہے کہ سب سے پہلے اپنی صفوں میں چھپے ان دشمن عناصر کو نکالا جائے جو یہاں بدامنی پھیلانے کیلئے غیروں کے اشارے اور پیرول پر کام کررہے ہیں جن کا کوئی مذہب اور قوم نہیں بلکہ وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ اس وقت بلوچستان کو ایک مائنڈ سیٹ کے خلاف جنگ کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہر شہری کا کردار اہم ہے۔ اگر ہم تقسیم ہوئے تو بلوچستان میں دیرپا امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا،تفرقہ بازی کوئٹہ شہر کو تباہ کرکے رکھ دے گا ۔

موجودہ صوبائی حکومت کوئٹہ شہر کے موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سیف سٹی پروجیکٹ کی جلد تکمیل کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ امن وامان کی صورتحال بہتر ہوسکے اور دہشت گردوں کو ان کے مذموم مقاصد میں کامیاب ہونے سے روکا جاسکے۔