|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2018

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی( ایف آئی اے ) کے مطابق عمران فاروق کے قتل کی سازش متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے بانی نے دیگر لوگوں سے مل کر تیار کی۔ 

عمران فاروق قتل کیس سے متعلق ایف آئی اے کی جانب سے انسداد دہشت گردی عدالت میں جمع کرائے گئے چلان میں کہا گیا ہے کہ عمران فاروق کو محسن علی سید نے پیچھے سے پکڑا جب کہ کاشف کامران نے پہلے سر پر اینٹ سے اور پھر سینے پر چھریوں سے وار کیے۔

چالان میں بتایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی کے علاوہ افتخار حسین، محمد انور اور کاشف خان کامران بھی مفرور ملزمان میں شامل ہیں۔

ایف آئی  اے کے چالان میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران فاروق کو ایم کیو ایم کی قیادت کو درپیش خطرے کے پیش نظر منظر سے ہٹایا گیا۔

ایف آئی اے کا کہنا ہے مزید ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے پاکستان ، برطانیہ اور سری لنکا میں تحقیقات جاری ہیں۔

ذرائع کے مطابق تمام ساتوں ملزمان کے نام ای سی ایل پر ڈالنے اور ان کے شناختی کارڈز بلاک کرنے کی کاروائی کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ایف آئی اے کی طرف سے لکھا گیا خط وزارت داخلہ کو موصول ہوگیا ہے۔ 

ایف آئی اے کے انسداد دہشتگردی ونگ کے سربراہ مظہر الحق کاکاخیل کی جانب سے وزارت داخلہ کو لکھے گئے خطوط میں ملزمان کے شناختی کارڈز بلاک کرنے اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی  اے کی جانب سے وزارت داخلہ کو بھیجے گئے تمام افراد کے نام 24 گھنٹوں کے اندر ای سی ایل میں شامل کر دئیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ہی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار تین ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کی تھی۔

عمران فاروق کا قتل؟

50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے، انہوں نے سوگواران میں اہلیہ اور دو بیٹوں کو چھوڑا تھا۔

عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کرنے والے جج کو تبدیل کردیا گیا

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی موت چاقو کے حملے کے نتیجے میں آنے والے زخموں کی وجہ سے ہوئی تھی۔

ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک اور ملزم کاشف خان کامران کی موت ہو چکی ہے۔