|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2018

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیا آصف زرداری اتنے بھولے تھے جو میرے بہکاوے میں آگئے۔انہوں نے یہ بات آصف علی زرداری کے حالیہ بیان کے ردعمل میں کہا۔انہوں نے کہا کہ میں نے آصف زرداری کو اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان پر ناپسندیدگی کا پیغام بھیجا تھا اور زرداری کے ساتھ اگلے روز ہونے والی طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کر دی تھی۔

جب میمو گیٹ زرداری پر بنا تو ساتھ نہیں دینا چاہیے تھااس لیے سابق صدر کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ انھوں نے یہ بیان میرے کہنے پر دیا تھا۔ آصف زرداری کیا اتنے بھولے اور معصوم تھے کہ میرے ورغلانے پر بیان دے دیا؟ اگر ایسا ہی تھا تو انہوں نے تین سال تک خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی؟واضح رہے کہ حال ہی میں آصف زرداری نے نواز شریف کودھوکے باز اور موقع پرست قرار دیا تھا۔تاہم ایک روز بعد پیپلز پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ آصف زرداری نے نواز شریف سے متعلق ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

نواز شریف کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے یہ تو بتا دیا کہ وہ ماضی میں میرے اشاروں پر چل رہے تھے اب یہ بھی بتا دیں کہ آج کل وہ کس کے اشاروں پر کٹھ پتلی بنے ہیں۔نواز شریف نے کہا کہ آصف زرداری پہلے اگر میری زبان بول رہے تھے تو آج بہادری دکھا کر بتائیں کہ اب کس کی زبان بول رہے ہیں، بہتر ہوگا کہ آصف زرداری ذاتی الزام تراشیوں کا دفتر نہ کھولیں اور اپنی توجہ انتخابات پر مرکوز رکھتے ہوئے نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم سمیت سندھ میں نیب کی دیگر کارروائیاں وفاقی حکومت کہ کہنے پر نہیں بلکہ اس وقت کے ڈی جی رینجرز سندھ کے کہنے پر کی گئی تھیں، جن سے ان کا یا وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں تھا۔میاں نواز شریف نے کہا کہ اب پاکستان کے عوام اپنے ووٹ کی عزت چاہتے ہیں، عوام پس پردہ سازشوں اور تماشوں سے عاجز آ چکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے پیپلز پارٹی دیہی سندھ تک سکڑ چکی ہے۔

انتخابات کے قریب آتے ہی ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان بیان بازی کی دوڑ لگی ہوئی ہے، جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کیاجارہا ہے ایک دوسرے کے خلاف شعلہ بیانی عروج پر ہے۔ کراچی شہر میں کافی عرصہ بعد پیپلزپارٹی نے لیاقت آباد میں جلسے کا انعقاد کیا جس سے بلاول بھٹو نے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کو شدید تنقیدکا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہاکہ الطاف حسین برے انسان ہیں توان کاساتھ دینے والے بھی برے ہیں ، بلاول بھٹو کی اس بات سے سب ہی متفق ہونگے کہ کراچی شہر میں جہاں متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اثر علاقے ہیں وہاں جلسہ کرنا شہر کو لہولہان کرنے کے مترادف تھا۔ ماضی کے ایم کیوایم کی جوتاریخ ہے اس کا دفاع کسی صورت نہیں کیاجاسکتا، کراچی شہرمیں آئے روز ہڑتال، جلاؤگھیراؤ ،قتل وغارت گری کا بازار گرم رہتا تھا۔ جب بھی ایم کیوایم کے سابق سربراہ الطاف حسین کے خلاف کوئی بیان دیتا تو پورے کراچی میں ہنگامہ پھوٹ پڑتے اور تاجربرادری سمیت عوا م کو جانی ومالی نقصان پہنچایاجاتا۔ 

بہرحال آنے والے انتخابات میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا سب کی نظریں اس وقت پنجاب کی سیاست پر لگی ہوئی ہیں کہ وہاں کونسی جماعت بازی مارے گی ۔ پنجاب میں کامیابی کے لیے تینوں جماعتیں اپنی پوری توانائی صرف کرر ہی ہیں ۔ 

لاہور میں حالیہ پی ٹی آئی پاور شو کامیاب رہا، مگر اسی طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی پنجاب میں اپنے پاور شو کامظاہرہ کیا۔انتخابی جلسوں میں سیاسی جماعتیں عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن جیتنے کے بعد عوام کو بھول جاتے ہیں۔

عوام کی زندگی میں اب تک بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ،بیروزگاری، مہنگائی سمیت بنیادی سہولیات سے آج بھی عوام کی اکثریت محروم ہے ۔ہر دور میں وعدے کرتے ہوئے عوامی حکومت کی بات کی جاتی ہے مگراقتدار چند افرادکے گرد ہی گھومتی ہے۔ اور مستقبل میں بھی عوام کیلئے کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی، صرف حکمران تبدیل ہونگے ۔کاش یہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں اور عوام کو کم ازکم بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ عوام کی امیدیں جمہوریت کے ساتھ بندھی رہیں اور وہ مایوسی کا شکار نہ ہوں۔