گزشتہ روزاسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ انہیں اس بات پر فخر تھا کہ اُن کی پارٹی میں اختلافِ رائے کو سنا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی ان پر طعنہ زنی میں مصروف ہیں لیکن انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار نہیں کررہے۔نواز شریف کو بارہاکہا کہ اداروں کے خلاف باتیں نہ کریں۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آئے روز سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک نئی کہانی سنائی جاتی ہے اور میاں صاحب اور ان کی بیٹی میرے خلاف طعنہ بازی میں مصروف ہیں۔سابق وزیر داخلہ چوہدری نثارنے کہاکہ ساری زندگی انہوں نے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا بوجھ اٹھایا ہے لیکن اختلاف رائے کی وجہ سے انہیں طعنوں کا نشانہ بنایا گیا۔ میری کردار کشی کی جا رہی ہے لیکن میں پارٹی نہیں چھوڑ رہا ۔
چوہدری نثار کی جانب سے پارٹی نہ چھوڑنے کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بعض حلقوں کی جانب سے یہ افواہیں سامنے آ رہی تھیں کہ وہ مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔چوہدری نثار نے کہا کہ اختلاف رائے پر نواز شریف اور مریم نواز انہیں برا بھلا کہتے ہیں، نواز شریف کی نااہلی کے بعد کئی ناراض اراکین میرے پاس آئے کہ الگ گروپ بنا لیا جائے لیکن میں نے ان کو پارٹی کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا۔
برا کہنے والے آج وفادار ہیں لیکن ساری عمر ساتھ دینے والا اختلاف کرنے پر اب برا بن گیا ہے۔چوہدری نثار نے کہا کہ نواز شریف اور ان کے پیادوں کو کہتا ہوں کہ میں نے 34 سال پارٹی کی خدمت کی ہے۔ نواز شریف سچ سنیں کیونکہ مشکل وقت میں سچ سننا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے میں نے اپنی زندگی ضائع کی ہے جسکی وجہ سے مجھے آج یہ وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں۔
چوہدری نثار نے کہا کہ میں نے نواز شریف کو خط لکھ کر کہا تھا کہ مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جائے اور تمام معاملات پر مشاورت کے بعد مشترکہ فیصلہ کر کے اٹھیں لیکن نواز شریف نے کوئی جواب نہیں دیا۔چورہدری نثار نے کہاکہ خلائی مخلوق کے متعلق نواز شریف کے بیان پر بہت افسوس ہوا۔چوہدری نثار نے کہا کہ سول عسکری تعلقات میں انہوں نے ہمیشہ نواز شریف اور سویلین حکومت کا ساتھ دیا ۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ن لیگ میں اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں اور اس کے بعض رہنماء پارٹی سے مستعفی بھی ہورہے ہیں جبکہ بلوچستان میں ان کے اپنے ہی اراکین نے اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی اور کامیابی کے بعد میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب کیا گیا۔ نواز شریف اور مریم نواز سمیت ن لیگی بعض ارکان نے اس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور پارٹی سے مستعفی ہونے والوں کو لوٹا کہہ دیا۔
ایک طرف میاں محمد نواز شریف ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلارہے ہیں اوراپنی ہر تقریر میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر ہم گزشتہ70ء سالہ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں ملک کے اندر منتخب حکومتوں کے خلاف سازش کرنے والے سیاسی جماعتیں ہی نظرآتی ہیں ایک جماعت نے دوسری جماعت کو اقتدار سے الگ کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کی وجہ سے آج تک پارلیمان اتنی مضبوط دکھائی نہیں دیتی مگر آج ووٹ کوعزت دوکی جو تحریک چل رہی ہے۔
اس میں بھی عوامی دلچسپی شاید ہی کہیں دکھائی دیتاہو کیونکہ ماضی آج حال بن کر سامنے آیا ہے اور ماضی میں ن لیگ کے ہاتھوں ڈسے جانے والی جماعتیں کیونکر آج اس کا ساتھ دینگی۔ البتہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب میثاق جمہوریت بنائی گئی مگر وہ بھی زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ انہی سیاسی رویوں نے عوام کو انتہائی مایوسی سے دوچار کیا ہے ۔ بہرحال ایک بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ ن کمزور ہوتی جارہی ہے۔