بلوچستان کے تمام بڑے شہروں میں لیویز کی جگہ پولیس کی تعیناتی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ اس سے قبل بھی لیویز فورسز کو ختم کیا گیا تھا مگر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے عوامی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان لیویز کو دوبارہ بحال کردیاجس کی بلوچستان کے عوام نے تحسین کی۔
بدقسمتی سے بلوچستان لیویز کے متعلق ایک غلط سوچ رکھی جاتی ہے کہ یہ شاید سرداروں یا نوابوں کی نجی فورس ہے مگر یہ غلط ہے کیونکہ لیویز فورس اس ملک کے آئین کے مطابق دیگر فورسز کی طرح اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ اندرون بلوچستان امن وامان کی بہتر صورتحال میں لیویز فورس کا انتہائی اہم کردار ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لیویز فورس میں مقامی باشندے شامل ہیں جو اپنے علاقے کی معاشرتی وسماجی اصولوں سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کے ایک آئی جی پولیس اور اس وقت کے وزیرداخلہ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس کی وجہ یہ تھی کہ آئی جی پولیس نے اپنے آرڈرز کے تحت مختلف علاقوں میں چھاپے مارے ۔
اس سے قبل یہی آئی جی پولیس کراچی میں اپنے فرائض سرانجام دے چکا تھا شاید وہ بلوچستان کے روایات و اقدار سے واقف نہیں تھا معاملہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ وزیر داخلہ کو اپنا منصب چھوڑنا پڑا اور اس نے استعفیٰ دیدیا۔ اس وقت کے آئی جی پولیس نے کراچی کی طرز پر یہاں قانونی عملداری قائم کرنے کی کوشش کی مگر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ہر علاقے کااپنا کلچر اور روایات ہوتے ہیں جس کی پاسداری بھی ضروری ہے ۔
لیویز فورس کی سب سے منفرد بات یہی ہے کہ وہ ایک مقامی باشندوں پر مشتمل فورس ہے جو نہ صرف جرائم پیشہ عناصر ،دہشت گردوں سے اچھی طرح واقف ہے بلکہ بہتر انداز میں امن و امان کیلئے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے ۔لیویزفورس گزشتہ کئی دہائیوں سے خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
اس کے تمام اہلکار حکومت کے خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں ان کو ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور اس کے ماتحت جوڈیشل افسران کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ دیہی پولیس بھی کہلاتی ہے جدید دور میں بلوچستان لیویز کا کردار کمیونٹی پولیس کے ہم پلہ ہے۔ یہ واحد فورس ہے جس سے عوام مکمل طورپر مطمئن ہے اور اس پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔
دوسری طرف پولیس کا معاملہ مختلف ہے وہ عوام اور کیمونٹی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ان کے افسران ان کوزیادہ سے زیادہ کماکر لانے کا کہتے ہیں اس لیے پولیس کے علاقوں میں ’’منظم جرائم‘‘پائے جاتے ہیں ان میں ہر قسم کے اڈے، چور اور ڈاکوؤں کے گروہ پالنا بلکہ اغواء برائے تاوان میں بھی سرکاری اہلکار ملوث پائے گئے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے بعض اداروں میں جرائم کی سرپرستی نظر آتی ہے لیکن بلوچستان لیویز میں اس قسم کی برائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی کیمونٹی کے سامنے جوابدہ ہے اور منظم جرائم کا ان کے علاقوں میں کوئی تصور نہیں ہے۔ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔
سب کو ایک دوسرے کی اہلیت اور حیثیت کا پتہ ہے غلط کام کرنے والوں کو فوراً نفرت کاشکار ہو کر الگ تھلگ کردیا جاتا ہے۔ پھر لیویز کو عوام کی حمایت اور مدد حاصل ہے جبکہ اپنے خراب ساکھ کی وجہ سے پولیس کو یہ حمایت حاصل نہیں ہے ۔
پولیس جہاں جاتی ہے اپنے ذرائع پیداوار پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور درپردہ مجرموں کی سرپرستی کرتی ہے، غلط کیس بنانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، بے گناہوں کو پکڑ کر تھانے میں بند کرنا اور پھر پیسے لے کر چھوڑنا تو ان کے روز کا معمول ہے۔کچھ اچھے لوگ بھی ہونگے لیکن اکثریت تو عوام کی کھال کھینچتی ہے۔
کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مقصد عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی ہوتا ہے لیکن لیویز کے خاتمہ کا فیصلہ سراسر بلوچستان کے عوام پر ایک اور ظلم ہوگا۔ذرا اندرون بلوچستان کے عوام سے بھی توپوچھئیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں کیونکہ آخر بھگتنا توپولیس کو انہوں نے ہی ہے،ایک سروے کرکے دیکھئے کہ عوام پولیس چاہے گی یا لیویز۔
اور اس کے ساتھ اس بات پر بھی کامل یقین رکھنا چاہئے کہ مقامی باشندوں کی شراکت داری کے بغیر دہشت گردی کے خلاف ہم جنگ جیت نہیں سکتے لہٰذا لیویز فورس کی جگہ پولیس کو دینا ایک غلط تجربہ ثابت ہوگا اور نہ ہی اس سے ہم اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔