2000ء کی دہائی میں متحدہ قومی موومنٹ ایک بار پھر منظم ہونے لگی اور اس طرح 10 سال تک اپنی بادشاہت قائم کی۔ جماعت کے ارکان بیرون ملک سے ملنے والی ہدایات پرمن وعن عمل کرتے رہے یہاں تک کہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں کو خون آلود کیا۔
اس دور کے چیف جسٹس میاں افتخار چوہدری جب 12 مئی 2007 ء کو کراچی پہنچے تو اسی جماعت کے مسلح ونگ نے شہر کے مختلف علاقوں میں چوکیاں لگائیں اور کسی کو بھی میاں افتخار کے استقبال کیلئے نہیں چھوڑا اور بیدردی کے ساتھ گولیوں کی برسات کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور جس کے حکم پر یہ سب کیا گیا اسی شخص نے مکالہراتے ہوئے کہاکہ کراچی میں ہماری طاقت سب نے دیکھ لی۔
یہ تو صرف ایک واقعہ تھا،کراچی میں دہشت گردی کے ایسے واقعات روز رونما ہوتے، جب اسی جماعت کے کسی رکن کو گرفتار یا قتل کیا جاتا تو پورے شہر کو آگ لگادی جاتی، ہفتہ بھر ہڑتالیں کی جاتیں، کراچی کے شہریوں کا جینا محال ہوکر رہ گیا تھا۔ آج جب یہ تمام گناہ سامنے آرہے ہیں تو متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان انکاری ہیں کہ وہ یرغمال تھے۔
درحقیقت اسی طاقت کے بل بوتے پر وہ ایوانوں میں جاکر بیٹھے تھے اور اسی کو نظریاتی سیاست قرار دیتے تھے کہ مہاجروں کے حقوق کیلئے کسی بھی حد تک جائینگے اور نظریہ مہاجرکا استعمال کرتے ہوئے معصوم اردو بولنے والوں کو بندوق کے حصار میں رکھا ۔آج ان کی صفائیاں کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔کراچی پر دہائیوں تک راج کرنے والے آج اپنی معصومیت اور استحصال کا رونا روتی ہیں اور اپنے مسئلے کو بلوچستان سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسی جماعت کے ارکان صوبائی اور وفاقی کابینہ کا بھی بھرپور مزہ لیتے رہے ہیں جبکہ بھتہ وصولی کی آمدن الگ ہوتی مگر اس کے بدلے انہوں نے اردو بولنے والوں کیلئے کچھ بھی نہیں کیاماسوائے ان پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگادیااور یہ بات سب جانتے ہیں کہ اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد نے متحدہ قومی موومنٹ کے اس طرز کی سیاست کو کبھی قبول نہیں کیا بلکہ انہوں نے کراچی کی رونقیں بحال کرنے اور اس کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ایک بات واضح ہے کہ کراچی اور بلوچستان کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے،بلوچستان میں 70 ء سالوں کی محرومیاں موجود ہیں ، یہاں کے وسائل سے اس سرزمین کے بیٹوں کو کچھ نہیں ملا جس کی وجہ سے یہاں کی لیڈر شپ سمیت عوام نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اوراس ناانصافی کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائی۔جبکہ متحدہ قومی موومنٹ نے بھرپور طریقے سے اقتدار کا مزہ لیااور ان کے قائدخود باہر بیٹھ کر لوگوں کے استحصال سے لطف لیتا رہا۔
آج کراچی کی سیاسی صورتحال نے الگ کروٹ لی ہے اب وہاں کے لوگ اس نظریاتی دھوکہ بازی میں نہیں آئینگے۔ پیپلزپارٹی کے جلسے کے فوری جواب میں ایک بار پھر ایم کیوایم ،پی آئی بی اور ایم کیوایم بہادرآباد نے مصنوعی اتحاد کا مظاہرہ کیا، اگر یہ نظریاتی اتحاد ہوتا تو سینیٹ انتخابات میں ان کے لوگ دوسری جماعت کو ووٹ نہ دیتے۔ اب تک دونوں دھڑوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں اور اس کی وجہ صرف پارٹی پر قبضہ ہے ناکہ مہاجروں کے مفادات۔
اس کے برعکس پی ایس پی کا موقف کسی حد تک جاندار ہے جس کے سربراہ مصطفی کمال نے ایک بار نہیں بلکہ بارہا اس بات کو دہرایا ہے کہ اب وہ لسانی سیاست کے ذریعے کراچی کو نفرت کی طرف نہیں دھکیلیں گے بلکہ کراچی کے تمام اقوام کو ساتھ لیکر چلیں گے۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی بھی ان دنوں کراچی کے سیاسی ماحول کو گرما رہے ہیں ۔ ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ اب کراچی کے تقدیر کا فیصلہ ایک جماعت نہیں کرے گی، اس میں دوسرے بازی گر بھی شامل ہوچکے ہیں۔