اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا خیال ہے کہ نگران وزیراعظم کے نام پر ایک مرتبہ پھر سوچ بچارکرلیا جائے شاید کوئی ایسا نام نظر آجائے جس پر ہم متفق ہو جائیں۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان اب تک متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ معاملہ لیڈر آف ہاؤس اور اپوزیشن کے درمیان ہی طے ہو یہ پارلیمان کے لیے اچھا ہو گا ایسا نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق نگران وزیر اعظم کے لیے مختلف ناموں پر غور جاری ہے تاہم حکمران جماعت اور اپوزیشن کسی بھی نام کو سامنے لانے سے گریزاں ہیں۔
پی پی پی کی جانب سے جلیل عباس جیلانی اور ذکاء اشرف کا نام لیا جا رہا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) ناصر الملک کا نام سامنے آیا ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نگراں وزیراعظم کی موجودگی آئینی ضرورت ہے جو انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا ۔ جہاں تک ناموں کی بات ہے وہ ہر نگران سیٹ اپ سے پہلے سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس وقت نگراں وزیراعظم کے چناؤ کے لیے بظاہر کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آ رہی لیکن ایسے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں جانب سے اندرون خانہ کوئی فیصلہ کیا جا چکا ہو،یہ بھی شنید میں آرہا ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین کا نام نگراں وزیراعظم کی فہرست میں سب سے اوپر ہے جس پر تقریباً تمام جماعتوں کا اتفاق ہے ۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی بھی کوشش کررہی ہے کہ کوئی ایسی شخصیت آئے جو ان کی نظر میں غیر جانبدار ہو چاہے دوسروں کی نظر میں نہ ہو۔خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ء سینیٹر نعیم نے اس سے قبل کہا تھا کہ نگران وزیراعظم کے لیے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی اور ماہر معاشیات عشرت حسین کا نام تجویز کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں نگران سیٹ اپ پر وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ نوجوان نگران وزیراعلیٰ پر اتفاق ہوجائے جو کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہ رکھتا ہو اور انتخابات مکمل شفاف طریقے سے ہوسکیں اور ساتھ ہی وہ بلوچستان میں اچھی طرز پر گورننس کو قائم کرے۔
بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ کے لیے ابھی کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے۔ آئین کے مطابق حکومتی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی نگراں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا چناؤعمل میں لایاجاتا ہے۔
موجودہ حکومت کی مدت 31 مئی کو ختم ہو رہی ہے جس کے بعد عبوری حکومت ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے گی جو ممکنہ طور پر جولائی کے آخر یا اگست کے پہلے ہفتے میں ہوں گے۔پہلے مرحلے میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو نگراں سیٹ اپ کے لیے ایک نام پر اتفاق کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
2013 کے انتخابات کے موقع پر بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں تھی جب پارلیمنٹ کے بجائے الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعظم کا نام چنا تھا۔نگراں سیٹ اپ کیلئے سب کی نگاہیں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر پر جمی ہوئی ہیں کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے نام سامنے رکھ دیئے ہیں اوراب تک کسی نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ڈ یڈلاک برقرار ہے مگر قوی امید ہے جلد ہی کسی نام پر اتفاق ہوجائے گا ۔