|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2018

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے احتساب عدالت کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کروانے کی سزا کے طور پر دائر کیے گئے۔ 

احتساب عدالت میں نواز شریف نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپنا بیان مکمل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اُن کا جرم صرف یہی ہے کہ انہوں نے 2014 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا تو بہت سے لوگوں نے انہیں دھمکی نما مشورہ دیا کہ یہ بھاری پتھر ان سے نہیں اٹھایا جائے گا۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی کارروائی کو روکنے سے متعلق انہوں نے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا۔

عدالت میں اپنا تیار شدہ بیان پڑھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سال 2013 کے اواخر میں غداری کا مقدمہ قائم کرنے کا عمل شروع ہوتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ آئین اپنی جگہ، جمہوریت کے تقاضے اپنی جگہ، پارلیمان کی بالادستی اپنی جگہ، قانون کی حکمرانی اپنی جگہ اور پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ اپنی جگہ، لیکن ایک آمر کو عدالت کے کٹہرے میں لانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید قانون اور انصاف کے سارے ہتھیار صرف سیاست دانوں کے لیے بنے ہیں۔ جابروں کا سامنا ہوتے ہی ان ہتھیاروں کی دھار کند ہو جاتی ہے اور فولاد بھی موم بن جاتا ہے ۔کوئی قانون یا عدالت غداری کے مقدمے کے ملزم کو ہتھکڑی بھی نہ لگا سکی۔

نواز شریف نے کہا کہ سابق فوجی صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہونے کے بعد 2014 میں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران عمران خان جو امپائر کی بات کرتے تھے تو وہ امپائر کون تھے۔

نواز شریف نے اپنے بیان میں سوال اٹھایا کہ سال 2014 میں ہونے والے ان دھرنوں کا منصوبہ کیسے بنا۔طاہر القادری اور عمران خان کیسے یکجا ہوئے، کس نے ان کے منہ میں وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ڈالا اور کون چار ماہ تک مسلسل ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا، یہ باتیں اب کوئی ڈھکی چھپی راز نہیں ہیں۔

عمران خان خود کھلے عام یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ بس ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ کون تھا وہ ایمپائر؟ وہ جو کوئی بھی تھا، اُس کی مکمل پشت پناہی ان دھرنوں کو حاصل تھی۔ نواز شریف نے لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی شہادت کا بھی حوالہ دیا ۔

میاں نواز شریف کے بیانات نے یہ ثابت کردیا کہ وہ برائے راست ایک ادارہ کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں۔ مگرذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے ساتھ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ سیاسی تعلقات کبھی بھی ایسے نہیں رہے جنہیں بیان کیاجاسکے البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو الٹانے سمیت پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم کی نااہلی کے دوران میاں نواز شریف نے عدلیہ کے فیصلوں کی تعریف کرنے کے ساتھ بھرپور جشن بھی منایا۔ 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے حالیہ پریس کانفرنس ، عدالت میں اٹھائے گئے سوالات، جلسوں میں تقاریر انتخابی مہم سمیت سیاسی لڑائی کا بھی حصہ ہیں اور اس طرح شاید وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے انتخابی مہم کے اہداف سمیت اپنی نااہلی کو ختم کرائینگے۔ 

البتہ تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرنے والے سیاستدان یا عوام اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ووٹ کا احترام خود سیاستدانوں نے نہیں کیا جس کی وجہ سے کبھی بھی یہاں اچھے سیاسی روایات نہیں رہے ۔ موجودہ صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ پاکستانی عوام اس وقت صرف اپنے بنیادی مسائل کا حل اور خوشحالی چاہتے ہیں جس کا کسی بھی مظلومیت کے نعرہ سے تعلق نہیں۔