|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2018

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کاکہنا ہے کہ مختصر وقت میں عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ، وہ تمام وعدے پورے کیے لیکن بعض ایسے مسئلے تھے جو کم وقت کے باعث ہم سے نہیں ہوسکے ۔ 

اس دوران بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ میرے آنے سے قبل بجٹ پیش ہوا اور ختم بھی ہوا جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو مشکلات بھی درپیش رہے ہم نے بھی بجٹ پیش کیا اور بجٹ میں تمام عوامی مسائل خاص کر دہشتگردی کے خاتمے ،تعلیم کی بہتری اور صحت کو ترجیحات میں رکھا۔

وزیراعلیٰ نے کہا ہم نے کینسر ہسپتال قائم کرنے کا وعدہ بھی پورا کیا ، اس ہسپتال کے قیام سے عوام کو علاج کی بہتر سہولیات دستیاب ہونگی۔ آنیوالے الیکشن میں امید رکھتا ہوں کہ لوگ کرسی نہیں ملک کی مضبوطی اور استحکام کیلئے سوچیں گے ۔اگر بلوچستان کی قومی سیٹوں میں اضافہ کرکے 16کی بجائے 40 کیا جاتا تو ہم وفاق کے سامنے خیرات نہیں مانگتے اور اپنے ایم این ایز کے ذریعے حقوق مانگتے لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا ۔

موجودہ حکومت نے ہیپاٹائٹس،گردے اور دیگر مہلک بیماریوں کے خاتمے کیلئے بجٹ میں فنڈز رکھے ہیں اگر بلوچستان میں ان کا علاج ناممکن ہوا تو دوسرے صوبوں میں حکومت کے خرچے پرمرایسے یضوں کاعلاج کرائینگے ۔ اسی طرح ہمارے بچے دیگر صوبوں میں کوالٹی ایجوکیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کا بھی حکومت بلوچستان خرچہ برداشت کریگی۔ 

اور اس بار صوبے کے تعلیمی بجٹ میں بھی25فیصد اضافہ کیا ہے۔زراعت کی بہتری کیلئے کسانوں میں بیج تقسیم کرینگے جبکہ دو ہزار کے قریب زمینداروں کو مال مویشی دینگے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں ۔ 

وزیراعلیٰ کا شکوہ بجا ہے کہ ہمیشہ بلوچستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی بلوچستان کو پی ایس ڈی پی میں جتنی رقم دی جاتی ہے اس سے بلوچستان کے آدھے مسائل بھی حل نہیں ہوسکتے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بلوچستان کے بڑے بڑے میگا منصوبوں پر وفاق قابض ہے ،ان کی ساری رقم لے جاتی ہے اور بدلے میں یہاں خیرات کے طور پر پی ایس ڈی پی میں تھوڑی سی رقم مختص کرتی ہے ۔

بلوچستان کی انہی محرومیوں کی وجہ سے یہاں کے حالات پر انتہائی منفی اثرات پڑے جسے کبھی اسلام آباد نے محسوس نہیں کیا البتہ زبانی جمع خرچ معافی جیسے الفاظ سے ہی ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ آج بھی بلوچستان دیگر صوبوں کی نسبت ترقی تو کجا انسانی زندگی کے معیار سے بھی بہت نیچھے ہے۔ 

جو خطہ وسائل سے مالامال ہے جہاں کے سونے ، تانبا، گیس سمیت دیگر وسائل سے بھرپور استفادہ کیاجارہا ہے مگر اس سرزمین کے اصل باشندے محرومیوں کا شکار ہیں۔ ماضی میں بلوچستان کے ساتھ ہونے والی انہی زیادتیوں کے خلاف قوم پرست سراپااحتجاج دکھائی دیئے، اب مرکزی جماعت سے تعلق رکھنے والوں نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ایک نئی جماعت کی بنیاد اس عزم کے ساتھ رکھ دی ہے کہ وہ بلوچستان کے لئے اب مرکز میں آواز اٹھائینگے اور اس جماعت کے ساتھ چلیں گے ۔

جو بلوچستان کی محرومیوں کے خاتمے کیلئے عملی طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ اگر نئی جماعت حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو اسے اپنے دعوؤں اور وعدوں کی تکمیل کو عملی طور پر زمین پر دکھانا پڑے گا ۔بلوچستان کو اب خیرات نہیں اپنے وسائل پر اختیار دینے کی ضرورت ہے تاکہ 70سالوں کی محرومیوں کا خاتمہ ہوسکے۔