غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان حکام اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کے لیے خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں۔افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ ان مذاکرات میں دوسرے ملکوں کی حکومتیں اور چند بین الاقوامی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔رواں برس فروری میں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی تاہم طالبان نے اس کے جواب میں اس وقت کچھ نہیں کہا تھا۔
ماضی میں اکثر اوقات طالبان مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں ۔گزشتہ چند ماہ سے افغانستان میں تشدد کے واقعات میں تیزی دیکھی گئی جس کے نتیجے میں دونوں جانب ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔گزشتہ دنوں شدت پسندوں نے کابل میں افغان وزارت داخلہ کے دفتر پر حملہ کیا تھا، جس کے ذریعے انہوں نے دارالحکومت میں اپنی حملہ کرنے کی طاقت اور صلاحیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔
شدت پسندوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اسی دوران افغان صوبے لوگر کے دارالحکومت میں بھی ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کیا تھا۔امریکی ذرائع نے ہلمند میں ہوائی حملوں کی تصدیق کیتھی۔ ان حملوں میں 50 کے قریب افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔افغانستان میں تعینات امریکی جنرل نکلسن نے افغانستان کی صورت حال کا کولمبیا کے حالات سے تقابلی جائزہ کرتے ہوئے کہا کہ تشدد اور مذاکرات بیک وقت جاری رہ سکتے ہیں۔
کولمبیا میں 50 برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ امن معاہدے کے بعد ہوا تھا۔جنرل نکلسن نے طالبان سے مذاکرات میں شریک نمائندوں کے ناموں کا انکشاف نہیں کیا البتہ یہ کہا کہ وہ درمیانے اور اعلیٰ درجے کے طالبان رہنماء تھے۔
فروری میں جب صدر اشرف غنی نے مذاکرات کی پیش کش کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ طالبان کی حیثیت کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے اگر وہ جنگ بندی قبول کر لیں اور ملک کے آئین کو تسلیم کر لیں۔طالبان نے اس وقت اس پیش کش کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
افغان حکام اور طالبان کے درمیان نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے ابتدائی قسم کے مذاکرات کا آغاز سن 2015 میں پاکستان میں ہوا تھا لیکن یہ مذاکرات ملا عمر کی موت کی خبر آنے کے فوراً بعد ہی ختم ہو گئے تھے۔انتہا پسند نظریات کے حامل طالبان کی تحریک کا عروج 1996 میں اس وقت ہوا تھا جب افغانستان کئی برسوں سے خانہ جنگی کا شکار چلا آ رہا تھا جو سوویت یونین افغان جنگ کے بعد شروع ہوئی تھی لیکن بعد میں گیارہ ستمبر 2001 میں امریکی حملے سے طالبان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔
طالبان کے چند گروہوں نے ہتھیار ڈال کر افغان سیاست میں شمولیت اختیار کرلی ہے مگر دوسری طرف طالبان کے حملوں میں پھر سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن صرف مذاکرات کے ذریعے ہی آسکتا ہے جبکہ طاقت کے استعمال سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے۔
پاکستان بھی بارہا افغان حکام کومذاکرات کیلئے مشورے دیتارہا ہے کیونکہ افغانستان میں امن سے خطے میں استحکام پیدا ہوگا جس کیلئے پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے مگر کسی کے ڈکٹیشن پر پاکستان نہیں چلے گا جس کا اظہار ہمارے سیاسی وعسکری حکام نے برملا کیا ہے۔
اب جب کہ افغانستان میں امن کیلئے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اسے نتیجہ خیز ثابت کرنے کیلئے پاکستان کے کردار کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں عرصہ دراز سے دہشت گردی کے واقعات صرف اسی جنگ کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں ۔
لیکن پاکستان نے شدت پسندی کے خاتمے کیلئے بڑے آپریشنز کئے اور ساتھ ہی قومی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی بھی اپنائی گئی ۔ افغانستان میں امن مذاکرات کیلئے پاکستان نے ہمیشہ اپناواضح موقف رکھا ہے جو افغانستان اور پاکستان دونو ں کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔
افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کا کردار اہم ہے
وقتِ اشاعت : June 3 – 2018