|

وقتِ اشاعت :   June 7 – 2018

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کیلئے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کو متنازع قرار دیتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو مشاورت میں نہیں لیا اس لئے حکومتی ممبران پارلیمانی کمیٹی میں شرکت نہیں کریں گے ۔

کیونکہ دوسرے صوبوں میں اپوزیشن لیڈر نے تمام جماعتوں کو آن بورڈ لیا ہوا تھا جبکہ ہمارے علم میں یہ بات اب آئی ہے جس کی وجہ سے ہم پارلیمانی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک عدلیہ کا فیصلہ نہیں آتا۔ حکومتی مدت پوری ہونے پر آئینی تقاضے کے پیش نظر اپوزیشن لیڈر سے تین ملاقاتیں کیں لیکن نگراں وزیراعلیٰ پر اتفاق رائے نہ ہوسکا کیونکہ اپوزیشن خود کسی ایک نام پر متفق نہیں تھی جبکہ میری خواہش تھی کہ نگران وزیراعلیٰ نوجوان ہو اور کسی جماعت سے تعلق نہ رکھتا ہو۔

میرعبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے پانچ سا ل تک اپوزیشن میں رہنے والی جماعتوں جمعیت علما ء اسلام ، عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اوربی این پی (عوامی) کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مرضی کے نام دئیے جس پر اپوزیشن جماعتوں نے اعتراض کیا اور عدالت جانے کافیصلہ کیا۔ 

آئین کے آرٹیکل 224(A)کے تحت اپوزیشن لیڈر نگراں وزیراعلیٰ کیلئے نام تمام جماعتوں کی مشاورت سے دے گا جبکہ اپوزیشن لیڈر نے ایسا نہیں کیا اور اپوزیشن نے 13ارکان کو نظر انداز کیا اس لئے پارلیمانی کمیٹی اب متنازعہ بن چکی ہے۔ہم نے سینئر ساتھیوں سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ پارلیمانی کمیٹی کے ممبر ان اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔

میرعبدالقدوس بزنجو نے اپوزیشن لیڈر کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ جمہوریت کا چمپیئن بننے والے خود ہی جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو اعتمادمیں نہیں لیا ۔شاید محمود خان اچکزئی کو بھی اس تمام معاملے سے لا علم رکھا گیا ہے تبھی یہ تنازعہ اُٹھ کھڑا ہو ا ہے۔اپوزیشن کا یہ اخلاقی فرض تھا کہ وہ تمام جماعتوں سے مشاورت کرتی لیکن ساڑھے چار سال تک اقتدار میں رہنے والوں نے حقیقی اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا۔

جے یو آئی ، بی این پی اور اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے پر اسپیکر کو خط لکھ دیا ہے جس کے بعد معاملہ شایدعدالت چلا جائے بصورت دیگر نگراں وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ الیکشن کمیشن میں جائے گا۔ وزیراعلیٰ کاکہنا تھا کہ پرنس علی بلوچ، بیر سٹر سیف مگسی ،امین اللہ رئیسانی کے ناموں پر اعتراض کیا گیا تھاکہ انکی سیاسی وابستگی ہے۔

ہم نے اپوزیشن کے اعتراض پر یہ نام واپس لئے۔ہم چاہتے ہیں کہ کوئی نوجوان وزیراعلیٰ آئے اسی لیے ہم نے علاؤ الدین مری کا نام شامل کیالیکن اپوزیشن کی جانب سے ساٹھ سال سے اوپر کے اسلم بھوتانی اور اسی سالہ اشرف جہانگیر قاضی کے نام دیئے گئے۔ اسی لیے ہم نے بھی ایک ساٹھ سال کے اوپر کے سردار شوکت پوپلزئی کا نام تجویز کردیا۔

دوسری جانب عبدالرحیم زیارتوال نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن پشتونخوامیپ،نیشنل پارٹی اور ن لیگ تھی۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے نگراں وزیراعلیٰ کے معاملے پر نیشنل پارٹی اور ن لیگ سے مشاورت کی ہے۔ جے یو آئی اور بی این پی تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت میں شامل ہوگئی تھیں ۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کو تب تو کوئی اعتراض نہیں تھا جب نگراں وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے مجھ سے ملاقاتیں کررہے تھے۔ 

ن لیگ، پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت پر عدم اعتماد جمعیت ، بی این پی ، اے این پی اور مسلم لیگ ن کے منحرف گروپ نے کیا۔ اس کے بعد یہ لوگ حکومت میں چلے گئے اور ہم اپوزیشن میں چلے گئے۔ اب اپوزیشن کی جو بھی بات ہوگی تو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے میرا استحقاق ہے اور ہم نے اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے نیشنل پارٹی اور ن لیگ اپوزیشن جماعت سے مشاورت کی۔ 

جے یو آئی اور بی این پی تحریک عدم اعتماد کے بعد پس پردہ حکومت کا حصہ تھیں۔ مولانا عبدالواسع کوعبدالقدوس بزنجو نے ایوان کے فلور پر پی اینڈ ڈی کا وزیر قرار دیتے ہوئے ایک معاملے پر کہا کہ آپ پی اینڈ ڈی کے وزیر ہیں اس پر جواب دیں۔ 

ان کاکہنا تھاکہ5سالوں میں صرف 3اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کرنیوالے اخترمینگل کیسے حقیقی اپوزیشن ہوگئے۔ وہ ثابت کریں کہ انہوں نے اسمبلی کے تین سے زیادہ اجلاسوں میں شرکت کی ہے۔ مولانا عبدالواسع میرے بطور اپوزیشن لیڈر تقرر کے خلاف عدالت میں گئے تو منیر احمد کاکڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت اقلیت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ 

مولانا عبدالواسع 13افراد کے اپوزیشن میں ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں اور عبدالرحیم زیارتوال 23 ارکان کے دستخط سے اپوزیشن لیڈر بنے ہیں تو 64کے ایوان میں تو 36ارکان اپوزیشن کے ہوگئے،حکومت کی اکثریت کہاں گئی۔ حکومت کو اعتماد کو ووٹ لینا چاہیے تو مولانا واسع نے کہا کہ اعتماد کے ووٹ میں وہ حکومت کا ساتھ دیں گے اور اب یہ اپوزیشن کی سربراہی مانگتے ہیں ، اس طرح عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے ، حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے۔ 

بلوچستان میں نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر پہلے سے یہی رائے پختہ ہورہی تھی ،نگران سیٹ اپ الیکشن کمیشن تشکیل دے گی مگر اب تک قانونی معاملات و تقاضے اپنی جگہ موجود ہیں پارلیمانی کمیٹی سے بات تو نکل چکی ہے ۔ 

اس سے قبل 2013ء کے دوران نگران سیٹ اپ کے حوالے سے بھی اپوزیشن کا معاملہ اسی طرح رہا جب جمعیت علمائے اسلام ف نے اپوزیشن کیلئے عدلیہ سے رجوع کیا مگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا۔ 

اب دیکھنا یہ ہے کہ آئینی وقانونی تقاضوں کے مطابق اصل اپوزیشن کیلئے کون بنے گا بہرحال اس معاملے پر بہت سارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اب یہ مسئلہ کیوں سامنے آیا ہے جسے خاص کر سیاسی ناپختگی سمجھاجارہا ہے ۔ دونوں فریقین کو اپنی جانب سے مکمل تیاری پہلے سے کرنی چاہئے تھی ۔