غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپے نے ایک مرتبہ پھر پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں تمام دہشتگرد تنظیموں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ کے دفتر سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپے نے بدھ کے روز پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر بات کی جس میں انہوں ں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری لانے کے طریقہ کار، افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے کی اہمیت کے بارے میں بات چیت کی اور جنوبی ایشیا ء میں تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی پر زور دیا۔
خبررساں ادارے کے مطابق ان کا اشارہ افغانستان میں کارروائیاں کرنے والے طالبان گروہوں بشمول حقانی نیٹ ورک کی جانب ہے جنہیں امریکی دعوؤں کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ دی جاتی ہے۔ اعلیٰ سطح کی یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گزشتہ ماہ ایک دوسرے کے سفارتکاروں پر سفری پابندیوں کے سبب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔
مائک پومپے نے حال ہی میں امریکی رکن پارلیمان کو بتایا ہے کہ پاکستان میں امریکی سفارتکاروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔اس سے پہلے امریکہ نے پاکستان کو دی جانے فوجی امداد روکنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ نے الزام لگایا کہ پاکستان انتہا پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کر رہا ہے جبکہ پاکستان ان تمام الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
سال 2018 کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹیوٹ کے ذریعے کہا تھا کہ پاکستان امریکی سیاستدانوں کو بیوقف بناتا آیا ہے اور امریکہ نے انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی ہے لیکن پاکستان انہی انتہا پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کر رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی جنگ کی وجہ سے جنوبی ایشیاء خاص کر مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیل رہی ہے اور اس جنگ کی وجہ سے مسلم ممالک شدید متاثر ہورہے ہیں ۔
ا ن جنگوں کا آغازخود امریکہ نے ہی کیا۔ افغانستان میں سرد جنگ کے دوران امریکہ نے کیاکردار ادا کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور خطے میں امن قائم کرنے کا دعویٰ کیا ۔
جس میں پاکستان نے بحیثیت اتحادی فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کاروائی کی جس کے ردعمل میں پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوئے جس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام سمیت سیکیورٹی فورسزیہاں تک کے پاکستان کے اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد میں شہادت ہوئی ۔
امریکہ کی جانب سے مسلسل پاکستان کو دباؤ میں لانے کیلئے مختلف حیلے بہانے تلاش کئے جارہے ہیں کہ پاکستان کو ایک ایسی جنگ کا حصہ بنایا جائے جوکہ پاکستان کی اپنی لڑائی سرے سے ہے ہی نہیں ۔
حال ہی میں پاکستان کے عسکری وسیاسی حکام نے امریکہ بشمول دنیا کے سامنے واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے بیانیہ دیا کہ ہم کسی غیر کی جنگ میں فریق نہیں بننا چاہتے بلکہ پاکستان نے ایک قدم آگے بڑھ کر دیرپا امن قائم کرنے کیلئے مذاکرات کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ واضح کردیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے کوئی ٹھکانے موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان کسی دہشت گرد گروہ کی حمایت کرتا ہے ۔
جس کی واضح مثال یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کئے گئے ۔مگر امریکہ جنوبی ایشیاء کو ایک اور جنگ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اور جس طرح کا لہجہ امریکہ کی نئی حکومت نے اپنائی، وہ انتہائی نامناسب ہے جو خطے کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔
امریکی جنگ جنوبی ایشیاء کی تباہی کا سبب بنے گا اس لئے امریکی حکام دباؤ کی پالیسی چھوڑ کر پاکستان کیساتھ مل خطے میں دیرپا امن کے لیے کردار ادا کرے۔ معاشی خوشحالی سے انتہا پسندی کو قابو کیا جاسکتا ہے لہذااس حوالے سے پالیسیاں بنائی جائیں، دنیا کو امن کا پیغام دیں خون خرابہ مسائل کا حل نہیں۔