|

وقتِ اشاعت :   June 10 – 2018

پاکستان کے عدالت عظمیٰ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ معطل کر دیا ہے اور اْنھیں اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی بھی اجازت دی ہے۔عدالت عظمیٰ نے سابق فوجی صدر کو 13 جون کو ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری برانچ میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوں تو اْنھیں گرفتار نہ کیا جائے۔سابق فوجی صدر پرویز مشرف آئین شکنی اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے سمیت چار مقدمات میں اشتہاری ہیں۔مختلف عدالتوں نے ان مقدمات میں ملزم پرویز مشرف کی جائیداد قرق کرنے کے احکامات بھی جاری کر رکھے ہیں۔ 

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پرویز مشرف کی نظرثانی درخواست کی سماعت کی۔پرویز مشرف کے وکیل قمر افضل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ان کے موکل پر انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق تاحیات پابندی عاید کرنے کے بارے میں جو فیصلہ دیا ہے اس میں حقائق کو سامنے نہیں رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ2013 میں پشاور ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس وقت سابق فوجی صدر کسی مقدمے میں سزا یافتہ بھی نہیں تھے۔قمر افضل کا کہنا تھا کہ عدالت کسی شخص پر انتخابات میں حصہ لینے پر کیسے پابندی عائد کر سکتی ہے جب کہ وہ کسی مقدمے میں سزا یافتہ بھی نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر انتخابات میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی عائد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چونکہ سابق فوجی صدر نے ملکی آئین کو توڑا ہے اس لیے اْن پر تاحیات پابندی عائد کی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا کہ وہ اپنے موکل سے کہیں کہ وہ جون کو عدالت میں پیش ہوں۔ 

عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی کی منظوری ان کی عدالت میں پیشی سے مشروط ہے۔دوسری جانب پرویز مشرف کے حوالے سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سب کچھ قانون سے بالاتر ہو رہا ہے، مشرف جیسے شخص کو کیسے گارنٹی دی جا سکتی ہے،احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں نواز شریف نے سوال اٹھایا کہ ہماری عقل و فراست میں یہ بات نہیں آ رہی،کدھر گیا آئین و قانون، آرٹیکل 6 اور کدھر گئے سارے مقدمے؟

سابق وزیراعظم نواز شریف کاکہناتھا کہ مشرف کے خلاف ایک طرف تو سنگین غداری کا مقدمہ چل رہا ہے اور دوسری طرف انہیں الیکشن لڑنے کی مشروط اجازت مل گئی ہے جبکہ مجھے تاحیات نا اہل کر دیا گیا ہے۔انہوں نے سوال کیاکس آئین اور قانون میں مشروط اجازت دینے کا لکھا ہے، ہمیں بھی دکھا دیں، سب لوگ حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ چیف جسٹس ایسا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ کوئی قتل کر دے،آئین توڑ دے، تباہی پھیر دے، لیکن چیف جسٹس چاہیں گے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ اکبر بگٹی قتل کیس میں مشرف شامل ہے، ججوں کو نظر بند کرنے، 12 مئی کے واقعے اور 2 بار آئین توڑنے میں مشرف شامل ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ انہیں گرفتار نہ کیا جائے، یہ کون سا آئین ہے؟ 

اس آئین کی شق ہمیں بھی پڑھا دیں۔ساتھ ہی انہوں نے شکوہ کیا کہ مجھے اپنی بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے 3 دن کا استثنیٰ بھی نہیں مل رہا۔ن لیگ کی جانب سے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ پر بھی اعتراضات سامنے آئے ہیں ۔

انہوں نے حسن عسکری کو جانبدارٹھہرایا ہے جبکہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ وہ کسی بھی طرح اس منصب پر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرینگے۔ عام انتخابات کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جو کسی صورت سیا سی ماحول کیلئے ساز گار نہیں۔

ن لیگ نے پیشگی دھاندلی اور جانبداری کے الزامات لگائے ہیں ۔ امید ہے کہ ن لیگ کے اعتراضات دور کئے جائینگے اور مشرف کے حوالے سے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائینگے جو ملکی حالات پر مثبت اثرات مرتب کرے گی۔