روزنامہ آزادی کوئٹہ نے اپنی اشاعت کے 18سال مکمل کرلئے۔ صوبے اور عوام کی خدمت میں روزنامہ آزادی پیش پیش رہا ہے۔اس کا سب سے بڑا مطمع نظر عوامی حقوق کی حفاظت کرنا ہے اور اس کے لیے حکومت اور دوسرے اداروں کو روکنا ہے کہ وہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔
روزنامہ آزادی نے صحافت کی آزادی اور شہری حقوق کا بھر پوردفاع کیا۔ کسی بھی غیر جمہوری اور ناانصافی پر مبنی احکامات اور اقدامات کی بھر پور مخالفت کی بلکہ بعض فیصلوں کی مزاحمت کی جن کا تعلق بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنا اور ذاتی مفادات کو پروان چڑھانا تھا۔ روزنامہ آزادی کی بنیادی پالیسی بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کے مسائل کو اجاگر کرنا اور حکومت اور انتظامی مشینری کو ان پر توجہ دلانا تاکہ پسماندگی اور غربت کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی جائے۔
اس میں روزنامہ آزادی اور اس کے کارکنان کو عوام الناس کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی ہے ۔ روزنامہ آزادی، آزادی صحافت اور آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ روزنامہ آزادی آج بھی پورے آب وتاب کے ساتھ شائع ہورہی ہے اور ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے۔گزشتہ ادوار میں جب کرپٹ اور بددیانت افسران روزنامہ آزادی پر مکمل تیاری کے ساتھ حملہ آور ہوئے اوراس کی معاشی مشکلات میں خطرناک حد تک اضافہ کیا تو اخبار کی قیمت مجبوراً دوگنی کرنی پڑی تاکہ اس کی اشاعت کے اخراجات کا کچھ ازالہ ممکن ہوسکے۔
روزنامہ آزادی واحد اخبار ہے جس نے اپنی اشاعت خود کم کی تاکہ وہ بحران سے نکل سکے اور عوامی خدمت میں اپنا کردار اداکرتا رہے۔واضح رہے اس وقت ایک چھوٹے سے شہر میں روزنامہ آزادی کے ایک ہزار سے زیادہ خریدار تھے ۔ روزنامہ آزادی رائے عامہ پر زبردست اثر رکھتی ہے صرف ایک وزیر کی خبر کو ایک لاکھ افراد نے ویب سائٹ پر دیکھا اور سینکڑوں افراد نے اس کو شیئر کیا۔اس طرح تقریباً روزانہ کوئی نہ کوئی بڑی خبر اس اخبار کی زینت بنتی ہے۔
پالیسی میں ایک بات صاف اور واضح ہے کہ اخبار ملک کے اندر منتخب نمائندوں خصوصاً نمائندہ حکومت کے رہنماؤں کو پہلا حق دیتا ہے کہ ان کی بات ان کے ووٹروں تک پہنچ جائے۔ دوسری طرف عوام کی باتیں بھی حکمرانوں تک پہنچائی جاتی ہیں ۔تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض افسران نے روزنامہ آزادی کو اس کا جائز مقام کبھی نہیں دیا۔
جب کبھی ان کیخلاف کوئی خبر چھپتی ہے تو وہ احتجاج کے ساتھ ساتھ دھمکیوں پر بھی اتر آتے ہیں اور اخبار کے لیے مشکلیں کھڑی کرتے ہیں،بہرحال یہ بات ضرور سمجھنی چاہئے کہ ذرائع ابلاغ کا اولین مقصد عام عوام تک حقیقی بنیادوں پر خبر پہنچانا ہے جس میں ذاتی بغض وعناد ذرا بھر بھی شامل نہ ہو اور یہی جدوجہد روزنامہ آزادی اول روز سے کرتی آرہی ہے جس کا اعتراف سیاسی، سماجی ، عوامی حلقوں سمیت میڈیا ہاؤسز بھی کرتے رہے ہیں۔
آج جب روزنامہ آزادی کو 18 سال مکمل ہوئے ہیں اس کا سہرا معروف دانشور، صحافی مرحوم لالہ صدیق بلوچ کے سر جاتا ہے جنہوں نے ذاتی جدوجہد سے اس کی بنیاد رکھی ،انہوں نے تمام مالی مشکلات کا ذاتی طور پر سامنا کیا مگر روزنامہ آزادی سے جڑے ملازمین کومالی مشکلات کا سامناکرنے نہیں دیا کیونکہ لالہ صدیق بلوچ نے خود بھی ایک عام صحافی کی طرح زندگی کا آغاز کیا تھا اور وہ بخوبی صحافیوں کی مشکلات کو سمجھتے تھے۔
لالہ صدیق بلوچ نے بلوچستان کا مقدمہ روزنامہ آزادی کے توسط سے بہترین انداز اور بھرپور طریقے سے لڑا ۔اس کی پاداش میں لالہ صدیق بلوچ کے قریبی دوست جو اہم حکومتی عہدوں پر فائز تھے، اشتہارات کی بندش سے اخبار کو مالی مشکلات سے دوچار کیا مگر لالہ صدیق بلوچ نے ان حربوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے قریبی دوستوں کی غلط طرز حکمرانی کو قلم کے ذریعے چیلنج کیا اور دلیل کے ساتھ بلوچستان کی پسماندگی، عوامی مسائل کا مقدمہ اپنے خصوصی رپورٹس، خبروں، اداریوں کے ذریعے روزنامہ آزادی کے ذریعے لڑا۔
آج روزنامہ آزادی جس طرح ایک تناور درخت بن چکی ہے اس میں کلیدی کردار لالہ صدیق بلوچ کا ہی رہا ہے جنہوں نے اپنا پورا وقت روزنامہ آزادی کیلئے وقف کیا تھا، حالانکہ ہر صحافی کے کام کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے مگر لالہ صدیق بلوچ واحد شخص تھے جو اپنے دو اخباروں کے لیے روزانہ صبح 10 بجے سے دوپہر 2بجے تک اور شام 6بجے سے لیکر رات 12 بجے تک خبریں ، خصوصی رپورٹس اور اداریے لکھتے تھے ۔ہم یہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ لالہ صدیق بلوچ نے اپنا پورا وقت بلوچستان کی سیاسی، سماجی، مالی اور دیگرمسائل کو اجاگر کرنے کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔
آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب بلوچستان کا ذکر آتا ہے تو بعض میڈیا ہاؤسز خاص کر الیکٹرانک میڈیا میں لالہ صدیق بلوچ کی تحریروں کا باقاعدہ حوالہ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی سوچ، فکر اور نظریہ آج بھی روزنامہ آزادی میں نظرآتا ہے ۔
اسی کو مشعل راہ بناکر ان کے فرزند ان احسن طریقے سے اپنے والد کی مشن کو آگے بڑھارہے ہیں ۔لالہ صدیق بلوچ کی رحلت کے بعد بعض حلقوں سے یہ بات سنائی دے رہی تھی کہ روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس اپنی ساکھ برقرار رکھ پائینگی جس طرح لالہ صدیق بلوچ کی زندگی میں تھا، تو وقت اور حالات نے یہ ثابت کردیا کہ لالہ صدیق بلوچ کے فرزندان بشمول ان کے شاگردوں خاص کر روزنامہ آزادی کے ملازمین جو لالہ صدیق بلوچ کو اپنی فیملی کی طرح عزیز تھے ،ان کی محنت سے روزنامہ آزادی بلندیوں کی جانب گامزن ہے ۔
اور اسی طرح لالہ صدیق بلوچ کی صحافتی جدوجہد کو سامنے رکھ کر ہم آج بھی یہ عہد کرتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کی حقیقی آواز بن کر بلوچستان کا مقدمہ اسی پلیٹ فارم سے لڑتے رہینگے جس کا آغاز لالہ صدیق بلوچ نے کیا تھا۔ روزنامہ آزادی کے 18 سال مکمل ہونے پر ہم لالہ صدیق بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔