نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علاؤالدین مری کی زیرصدارت نگران کابینہ کا پہلا اجلاس جمعرات کے روز وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا جس میں آئندہ انتخابات کے انعقاد، صوبے میں امن وامان کی صورتحال سمیت کوئٹہ اور گوادر میں پانی کی قلت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور کئی ایک اہم فیصلے کئے گئے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان ڈاکٹر اختر نذیر نے انتخابات کے انعقاد کے انتظامات، رجسٹرڈ ووٹرز، پولنگ اسٹیشنز، ڈی آر او، آراو اور اے آراو کی تعیناتی، انتخابی پروگرام سمیت مختلف امور پر تفصیلی بریفنگ دی۔ کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے چیف سیکریٹری کاکہناتھاکہ29000انتخابی عملہ جن میں پولنگ آفیسرز اسسٹنٹ پولنگ آفیسرز شامل ہیں جبکہ 4558 سینئرپریذائیڈنگ آفیسرز اور 4558 پریذائیڈنگ آفیسرز کی ٹریننگ جلد شروع ہوگی۔
سیکریٹری داخلہ غلام علی بلوچ نے کابینہ کو خستہ حال پولنگ اسٹیشنوں کی بحالی، حساس پولنگ اسٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب ، انتخابی عملے، ٹرانسپورٹ کی فراہمی، انتخابی عملے کو سیکیورٹی کی فراہمی سمیت مختلف امور پر تفصیلی بریفنگ دی۔ کابینہ شرکاء نے اس بات پر مسرت کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پرامن، صاف وشفاف انتخابات کے انعقاد میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی جائے گی۔
پرامن انتخابات کے انعقاد کے لئے تمام وسائل بروئے لائے جائیں گے، پولنگ اسٹاف سمیت انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گاجبکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لئے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز جلد سیکورٹی کنٹیجنسی پلان تشکیل دیں گے۔
کابینہ نے پولنگ اسٹیشنوں میں کیمروں کی تنصیب کے حوالے سے جلد حکمت عملی وضع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کیا کہ مالی وسائل کی کمی کی صورت میں وفاق سے رجوع کیا جائے گا۔ کابینہ نے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صوبے میں تفتیشی آفیسران کی استعداد کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ صوبے میں جلد از جلد فرانزک لیب کے قیام کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کو ناگزیر قرار دیا۔
کابینہ نے ہدایت کی کہ قومی دھارے میں دوبارہ شامل ہونے والے افراد کی سیکیورٹی اور ان کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ وہ صوبے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ کوئٹہ سیف سٹی منصوبے کی جلد تکمیل کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات تیز کئے جائیں گے جبکہ صوبے میں باہر سے آنے والے زائرین کو گوادر اور کراچی سے راستہ فراہم کرنے کی پالیسی وضع کی جائے گی ۔
تاکہ زائرین کودرپیش خطرات سے محفوظ رکھا جاسکے نیز سیکیورٹی کی مد میں صوبے کے اخراجات کو بھی کم کیا جاسکے۔ نگران کابینہ نے کوئٹہ اور گوادر کو درپیش پینے کے پانی کے مسئلے کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ کوئٹہ شہر میں ٹینکر مافیا کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ غیرقانونی ٹیوب ویلوں کے خلاف کاروائی، بند سرکاری ٹیوب ویلوں کی بحالی کے علاوہ عوام میں پانی کا کفایت شعاری سے استعمال اور شہر کی صفائی میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کیا جائے گا جبکہ گوادر میں پانی کی فراہمی کے لئے موجود ذرائع کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔
بلوچستان کی نگران حکومت اگر اس وقت سب سے اہم نوعیت کے مسئلے پانی کو ہی اپنی ترجیحات میں رکھے اور اسی کو حل کرنے کی کوشش کرے تو یہ یقیناایک مثالی کارنامہ ہوگا کیونکہ اس وقت بلوچستان میں پانی کی شدید قلت ہے ، کچھ اضلاع میں خشک سالی سے قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے جبکہ کوئٹہ اور گوادر جیسے اہم شہروں میں عوام کو صاف پانی تک میسر نہیں ۔
یہ مسئلہ عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے جس پر سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے۔ بلوچستان میں مستقل بنیادوں پر پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے بہتر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے قلت آب کا مسئلہ ہمیشہ سر اٹھاتا رہتاہے۔
اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو بلوچستان ریگستان بن جائے گا اور لوگ خطرناک وبائی امراض میں مبتلا ہونے کے ساتھ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائینگے ۔ نگران حکومت آبی مسئلے پر قابو پانے کیلئے ماہرین سے رجوع کرے تاکہ بہتر منصوبہ بندی کے تحت اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جاسکے ۔