سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ (ن) لیگ سے کوئی بات چیت نہیں چل رہی اور اگر مجھے اقتدار عزیز ہوتا معافی مانگ لیتا اور تھوکا ہوا چاٹ لیتا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار کاکہنا تھا کہ آج سے دس دن پہلے غلط خبر بنی اس میں کوئی حوالہ نہیں تھا کہ میں نے یہ بات کہاں کی؟
کہا گیا میں نے کہا ہے پی ٹی آئی میں دس غلطیاں ہیں تو (ن) لیگ میں سو غلطیاں ہیں، کہا گیا میں زبان کھولوں گا تومیاں صاحبان منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں گے، میں نے فوری طور پر اس کی تردید کی، زبان کھولی تو منہ دکھانے قابل نہیں ہوں گے، یہ میرا طرز کلام اور طرز سیاست نہیں ہے۔ چکری کی تقریر کو بنیاد بناکر طرح طرح کی باتیں کی گئیں، یہ ضرور کہا میرا ارادہ تھا کہ اپنی افتتاحی پبلک میٹنگ میں وضاحت کروں گا جو نوازشریف کے ساتھ میرے اختلافات پچھلے ایک سال سے جاری ہیں ۔
ان کی کیا وجوہات ہیں۔سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے ساتھ اختلافات کس نوعیت کے ہیں ان کی وضاحت ضرور کروں گا لیکن کلثوم نواز کی علالت کی وجہ سے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک ان کی صحت ٹھیک نہیں ہوجاتی اس پر بات نہیں کروں گا۔چوہدری نثار نے کہا کہ ضرور بتاؤں گا آزاد الیکشن کیوں لڑرہا ہوں، یہ سب سیاسی اختلافات ہیں، کسی سے ذاتی اختلافات کی بات نہیں کررہا۔ان کا کہنا تھاکہ میری سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی غلط خبر آئی، مجھے کوئی لالچ نہیں اور نہ کسی کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
حلقے کے عوام اور اللہ کے سامنے دیکھ رہا ہوں، 25 جولائی کو سب سامنے ہوگا کہ عوام کا فیصلہ کیا ہے۔سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ نوازشریف کو 34 سال سے خلوص سے مشورہ دیا، نواز شریف اور پارٹی کے لوگوں کو کہا کہ میرے معیار میں وفاداری یہ نہیں ہاتھ باندھ کر لیڈر کی ہاں میں ہاں ملاؤں، یہ منافقت ہے اور لیڈر کے ساتھ دشمنی ہے، اصل ایمانداری وفاداری یہ ہے کہ جو حقائق ہیں وہ سامنے رکھو اور میں نے یہی کیا۔
چوہدری نثار کا کہنا تھاکہ میں نے کوئی تماشہ نہیں لگانا، کسی کی تضحیک نہیں کرنی، حقائق اور دلائل سامنے رکھنا ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان سرد جنگ اور ایک دوسرے پر الزامات کاسلسلہ جاری ہے،پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور سابق جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین کے درمیان سرد جنگ شدت اختیار کر گئی ہے، پارٹی کے دونوں سینیر رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی لگائے گئے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی کا جہانگیر ترین کے ساتھ سرد جنگ سے متعلق سوال پر کہنا تھا کہ جہانگیر ترین سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، مقابلہ سیاست میں ہوتا ہے، جو شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا اور کسی گیم میں شامل ہی نہیں اس سے مقابلہ بنتا ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا پاگل ہوں جو جہانگیر ترین سے مقابلہ کروں، بنی گالہ کے باہر احتجاج کارکنوں کا حق ہے لیکن بتایا جائے کہ سکندر بوسن کو کون سپورٹ کر رہا ہے؟ کون ہے جو کارکنوں کو احتجا ج پر اْکسا رہا ہے ؟ اتنی اخلاقی جرات ہے تو سامنے آنا چاہیے۔شاہ محمود رقریشی کے ردعمل میں جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ کسی کے خلاف بات کرنا پسند نہیں کرتا، شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس دیکھ کر جواب دوں گا لیکن جواب دینے کے قابل کوئی چیز بھی ہو۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف میں بطور عام کارکن کام کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا، پارٹی کیساتھ ایسے ہی کھڑا ہوں جیسے پہلے کھڑا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ٹکٹوں کے لیے کوئی دھرنا دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے، میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے، اصول کی سیاست کرتا رہوں گا۔
شاہ محمود قریشی اپنے ضلع اور شہر کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر منصفانہ طریقے سے معاملات حل کریں کیونکہ دوسروں پر الزام لگانے سے بہتر تحفظات دور کرنا ہے۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ شاہ محمود قریشی دوسروں پر الزامات لگانے کے بجائے عون چوہدری جیسے کارکنوں کے تحفظات دور کریں۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ پی ٹی آئی میں نہ کوئی عہدہ مل سکتا ہے نہ میں کوشش کر رہا ہوں، عمران خان کو وزیراعظم بنانے اور تحریک انصاف کو برسراقتدار لانے کے لیے جو ہو سکا کروں گا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی کے دعویداروں اور نیا پاکستان بنانے والوں کے آپسی اختلافات اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کا یہ رویہ انتہائی مایوس کن ہے۔ عوام آس لگائے بیٹھے ہیں کہ سیاستدان ملک کو بحران سے نکال کر عوامی مسائل حل کرینگے مگر المیہ یہ ہے کہ جو جماعتیں اندرون خانہ اپنے اختلافات دور نہیں سکتے وہ عوامی مسائل کیا حل کریں گے ۔