ترکی کا نیا آئین نافذ ہونے جا رہا ہے جس کے تحت صدر کو زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے جمہوریت کمزور ہو گی۔صدارتی انتخابات کے علاوہ ترکی میں پارلیمانی انتخابات بھی ہوئے۔
صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ اس الیکشن کے ساتھ ترکی ایک جمہوری انقلاب سے گزر رہا ہے۔صدر اردوغان چاہتے تھے کہ انہیں50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں تاکہ ووٹنگ دوسرے راؤنڈ میں نہ جائے۔رجب طیب اردوغان کا سینٹر لیفٹ رجحان رکھنے والے ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے امیدوار مسٹرا نسے سے سخت مقابلہ تھا۔خیال رہے کہ ترکی میں جولائی 2016 میں ناکام تختہ الٹنے کے واقعے کے بعد سے ایمرجنسی نافذ ہے۔
یہ انتخابات نومبر2019 میں ہونے تھے لیکن صدر اردوغان نے انہیں قبل از وقت کرانے کا فیصلہ کیا۔صدر اردوغان نے کہا کہ مخالفین کو قانون کے دائرے میں سبق سکھائیں گے،صدر اردوغان اور ان کے حریف نے اپنے انتخابی مہم کے آخری دن بڑی ریلیاں نکالیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو ترکی پر حکومت کرنے کیلئے نااہل قرار دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار ترکی کے انتخابات نے حزب اختلاف میں جان پھونک دی ہے۔ اردوغان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اردوغان کی فتح سے لوگوں کی نگرانی جاری رہے گی،خوف کی حکومت برقرار رہے گی اگرارودغان کو شکست ہوئی تو عدالتیں آزاد ہوں گی۔صدارتی امیدوار محرم انسے نے کہا کہ وہ غیر جانبدار صدر ہوں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو ترکی میں عائد ایمرجنسی کو 48 گھنٹے کے اندر ہٹا لیا جائے گا۔
ایمرجنسی کی وجہ سے حکومت پارلیمان کو نظر انداز کرتی ہے۔دوسری جانب اپنی ریلی میں صدر اردوغان نے اپنے حامیوں سے ایک متشدد استعارے کا استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا کل ہم انہیں عثمانی تھپڑ لگائیں گے؟ رجب طیب اردوغان 2014 میں صدر بننے سے قبل 11 سال تک ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ارودغان نے سابق استاد اور 16 سال سے رکن پارلیمان رہنے والے مسٹر انسے کے بارے میں کہا کہ ان میں قیادت کا ہنر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طبیعیات کا استاد ہونا الگ بات ہے اور ملک چلانا دوسری بات ہے۔ صدر بننے کے لیے تجربہ کار ہونا ضروری ہے۔انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے وہ مزید اہم بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹس لانے والے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی کی جدید تاریخ میں یہ ملک کبھی اتنا منقسم نہیں رہا اور نہ ہی رجب طیب اردوغان کو اس سے قبل اتنے سخت مقابلے کا سامنا رہا ہے۔
جدید ترکی کے بانی کمال عطا ترک کے بعد ترکی کے سب سے طاقتور رہنما کو اگر کامیابی ملتی ہے تو وہ مزید طاقتور ہو جائیں گے اور وہ وزیر اعظم کا عہدہ ختم کرکے پارلیمان کو کمزور کریں گے۔
حالیہ انتخابات میں تقریباً چھ کروڑ ترک باشندے ووٹ دینے کے اہل تھے اور صدر کے عہدے کے لیے چھ امیدوار میدان میں تھے۔ ارودغان کی جیت کے بعد ترکی کے حوالے سے مغرب کے خدشات وہی ہیں کہ ایک آزاد و خود مختار پارلیمنٹ سمیت عوامی آزادی مشکل ہوگی کیونکہ اس سے قبل بھی ترکی کے صدر ارودغان پر آمرانہ روش، صحافت پر پابندی، عدلیہ پر کنٹرول کے حوالے سے خدشات وتحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ۔
اب ترکی میں نیا آئین نافذ ہونے جارہا ہے جس سے صدر کے پاس زیادہ اختیارات ہونگے جو کہ مغرب کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا اور یورپ بھی اپنے پرانے مؤقف پر قائم رہے گا کہ وہ ترکی کو یورپی یونین کا حصہ نہیں بنائے گا جو ترکی کی دیرینہ خواہش ہے۔
البتہ ترکی میں جنگ سے متاثر مہاجرین کو پناہ دینے کی وجہ سے یورپ اور امریکہ اپنا دباؤ ترکی پر نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ ماضی میں بھی جب ترکی پر طرز حکمرانی کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے تھے اور امدادی حوالے سے جب یورپ نے اپناہاتھ کھینچا تھا تو ترکی نے مہاجرین کی بڑی تعداد کو یورپ کی طرف بھیجنے کیلئے دروازہ کھول دیا تھا جس سے خوفزدہ ہوکر یورپ کو اپنے فیصلوں پر مجبوراً نظرثانی کرناپڑاتھا۔
بہرحال تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں ترکی میں تاریخی مقابلہ دیکھنے کو ملا جو جمہوری سفر کیلئے ایک نئی امید ہے۔ البتہ اب سب کی نظریں طیب ارودغان کی پالیسیوں پر لگی ہوئیں ہیں کہ وہ ملک کے اندر بہترین اصلاحات لائینگے یا پھر فرد واحد کے گرد چلنے والی ایک ریاست کے حوالے سے قانون سازی کرینگے ۔