بلوچستان کی سابقہ تمام حکومتوں نے اقتدارحاصل کرنے سے قبل صوبہ کی پسماندگی کا رونا رویا مگر کرسی پر براجمان ہوتے ہی بلوچستان کے حقیقی مسائل کو بھول گئے ،سیاسی وفاداریاں تبدیل کیں اور عوام کو بھول کراپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے ہر جتن کیے تاکہ ان کی حکومتی مدت پوری ہو۔
بلوچستان کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے منظور نظر افراد کونوازا اور مزید پیسے کمانے کے لیے ملازمتوں تک کو بیچا گیا۔ بلوچستان کی پسماندگی کی بات تو سبھی کرتے ہیں مگر اس دلدل سے اسے نکالنے کیلئے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
حالیہ قلیل مدت کے لیے بننے والی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ بلوچستان میں غربت اور پسماندگی بہت زیادہ ہے اور وفاق اس حقیقت سے مکمل بے خبر ہے ، کئی سالوں سے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے بلوچستان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے ، حکومت کو بجٹ بنانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑااور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 61ارب روپے کا خسارہ شامل ہے۔
وفاق سی پیک کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے لیکن حقیقت میں گوادر ابھی تک کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے جہاں پینے کا پانی دستیاب نہیں۔وفاقی حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں محض اعلانات کئے، M۔8 جو مشرف دور میں شروع کی گئی تھی سابق آرمی چیف(ر)جنرل راحیل شریف نے اسے مکمل کیا، سی پیک کے بہت سے منصوبے مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں شروع کیے تاکہ انہیں آنے والے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹ مل سکیں۔
بلوچستان کا عام آدمی یہی سوچتا ہے کہ پنجاب اس کا استحصال کررہا ہے جس سے صوبوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں اور محرومیوں میں اضافہ ہورہاہے۔ یہاں کے لوگ سی پیک کے قطعی مخالف نہیں لیکن اگر سی پیک کے ثمرات سے گوادر اور بلوچستان کے لوگ مستفید نہیں ہوں گے تو یہ ہمارے لئے بے سود ہے۔
وفاق نے پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کو ہمیشہ نظر انداز کیا جس میں ہمارے اپنے وزرائے اعلیٰ اور دیگر عوامی نمائندے برابر کے قصوروار ہیں جنہوں نے وقتی مراعات کے لئے کبھی مؤثر آواز نہیں اٹھائی۔
بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کے لئے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ بلوچستان کی سیاسی حیثیت میں اضافہ ہواور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکے ۔ اگر گوادر کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی تو وہاں کے مقامی لوگ اقلیت میں چلے جائیں گے۔
اس مسئلے کو اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا تاکہ ایسا حل نکالا جاسکے جس سے مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل نہ ہو۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں گوادر پر لگی ہوئی ہیں سرمایہ کار اپنا پیسہ لگانے وہاںآرہے ہیں اور بعض قوتیں حالات کوخراب کرنا چاہتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ کی مد میں تھوڑے زیادہ پیسے ملے اور بلوچستان پیکج کا بھی اعلان کیا گیا لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بلوچستان کو مکمل نظر انداز رکھا، کوئی قابل ذکر منصوبے شروع نہیں کئے جبکہ نوازشریف یہ احسان جتاتارہا کہ انہوں نے قوم پرستوں کو حکومت دی۔
نوازشریف اگر بلوچستان سے کسی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ یا ملک کا وزیراعظم بناتے تو ہم مانتے، ہماری ٹوپی ہمارے سررکھنا کوئی احسان نہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حالات سے سب ہی آگاہ ہیں جس طرح ماضی کی حکومت نے یہ جواز پیش کیا کہ ن لیگی رویہ کے باعث بلوچستان ترقی کے اہداف حاصل نہیں کرسکا مگر اس سے قبل بھی تو حکومتیں بنیں توانہوں نے کس حد تک بلوچستان کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ سیندک اور ریکوڈک جیسے اہم منصوبوں کا حصہ بھی بلوچستان کو نہیں ملا دیگر منصوبے بھی بلوچستان میں جاری ہیں جس سے وفاق اربوں روپے منافع لے رہا ہے مگر بلوچستان کو کسی طرح بھی فائدہ نہیں مل رہا یہی وہ اسباب ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان ہمیشہ سیاسی حوالے سے عدم استحکام کا شکار رہا ہے ۔
عام انتخابات کی تیاریاں بھی زور وشور سے جاری ہیں اور اس بار بھی سیاسی جماعتوں کا نعرہ خوشحال بلوچستان ہے عوام صرف یہی سوال پوچھ ر ہے ہیں کہ بلوچستان میں حقیقی تبدیلی کب آئے گی۔
بلوچستان میں حقیقی تبدیلی کب آئے گی
وقتِ اشاعت : June 27 – 2018