|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2018

کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال خان نے کہاہے کہ بحیثیت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ کسی رشتہ دار کو ٹکٹ جاری نہیں کیاہے ،کوئٹہ اور صوبے میں مسائل کے حل کیلئے بہتر پلان کی ضرورت ہے۔

،بلوچستان عوامی پارٹی خراب گورننس اور لوگوں سے ہونے والی زیادتی کی وجہ سے بنی ہے ،بلوچستان کے مسئلے پرمسلم لیگ (ن)کے قیادت اور وزیراعظم کے سامنے کئی مواقعوں پر اپنااحتجاج خط کے ذریعے اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ریکارڈ کروایاہے ۔

خدشات اور تحفظات کاازالہ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) چھوڑنی پڑی ،بلوچستان سمیت پورے ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہیں جسے ڈیلے ایکشن ڈیمز اور چیک ڈیمز بنا کر پانی کے بحران پر قابو پایاجاسکتاہے۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز صحافیوں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ سابق وفاقی وزیر برائے مملکت پیٹرولیم جام کمال خان نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت کا رویہ انتظامی وسیاسی لحاظ سے بلوچستان کے حوالے سے مایون کن رہا مجھ سمیت بہت سے اراکین اسمبلی نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ(ن) کو جوائن کیا ۔

بلوچستان عوامی پارٹی نے میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر خواتین اور اقلیت سمیت صوبائی وقومی اسمبلی کے امیدواروں کوٹکٹ جاری کئے ہیں ،میں نے بحیثیت پارٹی سربراہ اپنے کسی رشتہ دار کو پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا جبکہ پچھلے سینٹ کے الیکشن میں بلوچستان میں ایک شخصیت نے اپنے گھرانے کے کئی افراد کو سینٹ کے ٹکٹ جاری کرکے انہیں منتخب کرایا ۔

میں نے مسلم لیگ (ن)کے قیادت اور وزیراعظم کے سامنے کئی مواقعوں پر بلوچستان کو نظرانداز کرنے کے معاملے پر اپنااحتجاج خط کے ذریعے اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ریکارڈ کروایا اور میں 6سے 8ماہ اسلام آباد نہیں کیا گیا جس کے بعد پارٹی قیادت نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان کے اراکین قومی اسمبلی کے تمام خدشات وتحفظات کاازالہ کرکے معاملات میں بہتری لائی جائیگی مگر ایسا نہ ہوسکا جس پر مجبورہوکر پاکستان مسلم لیگ(ن) کو خیرآباد کہناپڑا۔

انہوں نے کہاکہ سیاست کسی ایک لیڈر کی پوجا اور تابعداری کا نام نہیں بلکہ ہم نے عوامی خدمت کی بناء پر سیاست میں قدم رکھاہے سابقہ حکومتوں نے گوادر کے عوام کو صاف پانی کے نام پر کوسٹل بیلٹ میں ٹینکروں کے ذریعے صاف پانی کی فراہمی پر تین ارب روپے خرچ کئے مگر گوادر کے عوام ابھی تک پانی کی سہولیات سے محروم ہیں ۔

،بلوچستان سمیت پورے ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہیں جسے ڈیلے ایکشن ڈیمز اور چیک ڈیمز بنا کر پانی کے بحران پر قابو پایاجاسکتاہے ،صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں انفراسٹرکچر کی بحالی اور یہاں کے شہریوں کو علاج تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی سمیت ٹریفک اور دیگر مسائل کے حل کیلئے بڑے ماسٹر پلان کی ضرورت ہے بدقسمتی سے صوبے میں محکموں کی بجائے صرف ٹھیکیداروں نے ہی کام کیاہے ۔

اگر صوبے کا چیف ایگزیکٹو مثالی طرز حکمرانی اپنائے تو بلوچستان کے بجٹ سے سالانہ 30سے 40ارب روپے ہم بچت کرسکتے ہیں مگر بدقسمتی سے صوبے کا بجٹ اکثر لیپس ہوتاہے جس کی ذمہ داری ہمارے اپنے ہی لوگوں پر عائد ہوتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان عوامی پارٹی کسی کے اشارے پر نہیں بنی بلکہ ماضی کی بیڈگورننس اور لوگوں کے ساتھ زیادتیوں کی وجہ سے تشکیل دی گئی ہے 25جولائی کے عام انتخابات میں ووٹرز زیادہ سے زیادہ ووٹ کاسٹ کرکے آئندہ 5سالوں کیلئے ایماندار اور عوامی خدمت کے جذ بے سے سرشار قیادت کومنتخب کریں ۔

اب عوام اس پارٹی کا ساتھ دیں گے جو اپنے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے منشور پر عملدرآمد کرواسکیں ،زبان وقومیت اور لسانیت وتعصب کے نام پر ووٹ لینے کا دور گزرگیاہے ،سابق وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کو وزارت اعلیٰ کے ادوار میں فری ہینڈ دیا تھا اور مرکز سے چیک اینڈ بلینس نہ ہونے اور اراکین اسمبلی وکارکنوں کا بری طریقے سے استحصال کیا گیا۔

مجھ سمیت سندھ اور پنجاب کے وزراء مملکت کے پاس کوئی اختیارات نہیں تھے اور محکمہ کی فیصلہ سازی میں ہمارا کوئی رول نہیں تھا بلکہ وزیرمملکت کی حیثیت سے مجھے صرف سینٹ اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت اور پارلیمنٹ میں پارلیمانی سوالات کے جوابات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور محکمہ پیٹرولیم کی پالیسی مرتب کرنے اور دیگر امور میں میرا کوئی کردار نہیں تھا۔

بلوچستان کی احساس محرومی ،مرکز کی زیادتیوں اور حکمرانوں کے غلط رویے کی بناء پر بلوچستان کے پارلیمانی رہنماؤں نے اپنے فیصلے خود کرنے اور مرکز میں بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی ۔