|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2018

بلوچستان میں جہاں عام انتخابات کی مہم کاآغاز ہوچکا ہے وہیں بلوچستان کے سابق منتخب لیڈران کے درمیان سماجی ویب سائٹ پر لفظی جنگ جاری ہے،سوال یہ اٹھایاجارہا ہے کہ 70 سالوں کے دوران جمہوری وغیر جمہوری ادوار میں کس نے اپنے حلقے میں کیاکارنامہ سرانجام دئیے۔ 

70 سالوں کا موازنہ کیاجائے تو ہمیں بلوچستان آج بھی اسی مقام پر نظرآتا ہے جہاں پہلے تھا۔ بلوچستان کے منتخب نمائندگان کا ہمیشہ گلہ یہی رہا ہے کہ وفاقی رویہ کے باعث بلوچستان نے ترقی کے اہداف حاصل نہیں کئے اور ہمیشہ اسے نظرانداز کرکے دیوار سے لگایاگیا،یہاں تک کہ بلوچستان کو محض ایک کالونی کی حیثیت دی گئی اور ملک کا حصہ سمجھا ہی نہیں گیا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وفاق نے بلوچستان کو اس کا جائز حق کبھی نہیں دیا جتنے منصوبے یہاں شروع کئے گئے ان کی آمدن کا بیس فیصد بھی بلوچستان کو نہیں دیا گیا جبکہ وفاق اربوں روپے بلوچستان کے وسائل سے لے جارہا ہے اور جب بلوچستان میں خسارے کا معاملہ آتا ہے تو وفاقی حکومت اپنا ہاتھ کھینچ لیتی ہے ۔

یہ انتہائی غیر مناسب رویہ ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں وفاق سے متعلق اچھی رائے نہیں پائی جاتی جس کی ایک مثال حال ہی میں مرکزی جماعت سے باغی سیاسی رہنماؤں کی بننے والی نئی جماعت ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مرکزمیں بننے والی جماعتوں نے اپنے ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے نمائندوں کو کبھی بھی اہم معاملات کے فیصلوں میں شامل نہیں کیاجس کا اظہار وہ خود کرتے ہیں ۔

سماجی ویب سائٹ پر ایک دوسرے پر الزامات کی جنگ مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس وقت بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں اپنا پارٹی پروگرام واضح کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے عوام کی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے تاکہ ستر سالوں سے محروم وسائل سے مالامال خطے کو کسی بھی طرح ترقی کی راہ پر گامزن کیاجاسکے۔ اگر دیکھاجائے تو ہمارے یہاں سیاسی لیڈران سے زیادہ افسر شاہی نے بلوچستان کو نقصان پہنچایا جو ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر منتخب نمائندگان کو غلط مشورے دیتے ہیں ۔

جس کے باعث بلوچستان کیلئے بہتر پالیسی نہیں بنائی جاسکی۔ جب تک کرپٹ عناصر کو منتخب نمائندگان خود سے دور نہیں رکھیں گے یہ سوالات اپنی جگہ موجود رہینگے۔ بلوچستان کے سیاسی لیڈران جو سوالات اٹھارہے ہیں وہ بخوبی مسائل اور پیچیدگیوں سمیت اس کے اسباب سے بھی واقف ہیں جن کودور کرنے کیلئے انہیں اس سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

خاص کر ہمارے یہاں رشتہ داریاں، اقرباء پروری ، مصلحت پسندی کا شکار ہوکر بہ امر مجبوری نوازنے کی خصلت موجود ہے اگر اس عمل سے نکل کر میرٹ کی بنیاد پر بلوچستان میں فیصلوں اور وفاق کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کرکے پی ایس ڈی پی میں اضافہ اور این ایف سی ایوارڈسمیت اپنے وسائل پر اختیار کیلئے جدوجہد کی جائے توکم مدت میں بلوچستان کو مسائل سے نکالا جاسکتا ہے۔ 

بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ضرورت نہیں یہ سب کے سامنے عیاں ہیں۔ سوشل میڈیا پر لفاظی سے کچھ نہیں ہوگا، اس بار منتخب نمائندگان کو اپنے آپ سے عہد کرنا چائیے کہ70 سالوں سے مشکلات میں گرے بلوچستان کو مسائل سے نکالنے کیلئے خلوص اور ایمانداری سے کام کرینگے اور کسی مصلحت کو آڑھے نہیں آنے دینگے۔