|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2018

بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں بلدیاتی انتخابات سب سے پہلے ہوئے مگر اب تک اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوئے۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران تین وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے تینوں نے اپنے ادوار میں بلدیاتی اداروں کو فعال اور نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے وعدے کئے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔ 

بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کی غیر فعالی کی وجہ سے بلدیاتی نمائندوں نے ہر بار اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا مگر اسے خاطر میں نہیں لایاگیا۔ کوئٹہ میں بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی کا تاثر کافی دیکھنے کو ملا کیونکہ جس طرح سے انہوں نے کوئٹہ کی خوبصورتی کے دعوے کئے وہ سب کو یاد ہے۔ کوئٹہ میٹرو پولیٹن کے میئر نے سب سے پہلے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے کوئٹہ کے قدیم گوشت مارکیٹ کو گرادیا اور اس کی جگہ پارکنگ پلازہ، تفریحی پارک بنانے کے عزم کا اظہار کیا ۔

چار سال گزر گئے اب تک گوشت مارکیٹ کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہے جبکہ غریب قصاب درپدر ہوگئے اور ساتھ ہی شہریوں کی مشکلات بھی بڑھ گئیں۔ بلدیاتی اداروں کی غیرفعالیت کی وجہ سے کوئٹہ جو صوبائی دارالحکومت کہلاتا ہے، مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ سیوریج نظام تو یہاں سرے سے ہی موجود نہیں۔

صفائی کی صورتحال ابتر، غیر قانونی پارکنگ ، بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی، شہر میں بڑے بڑے شورومز کی موجودگی کے باعث ٹریفک کی روانی میں خلل نے شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ امید کی جارہی تھی کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد انہیں بااختیار بنانے کے ساتھ ان تمام مسائل کا خاتمہ کیاجائے گا مگرہنوز دلی دور است۔ بڑے بڑے شورومز، بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیرات جن کے پیچھے بااثر شخصیات کا ہاتھ ہے ۔

ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اورایسی تعمیرات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے مگر اس کا جواب نہیں ملتا کہ ان لوگوں کے تعمیر ہونے والے مکانات کے نقشے کس طرح پاس کئے جاتے ہیں نیز یہ انتہائی حساس مسئلہ ہے کیونکہ کوئٹہ زلزلہ زون میں واقع ہے جہاں صرف تین منزلہ عمارت بنانے کی اجازت ہے لیکن کوئی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا اور قانون بھی کسی کھونے میں دبک کے بیٹھ گیا ہے۔ 

ایک کوئٹہ پیکج کا بھی بڑا چرچا سنا گیا جس میں شہر میں سڑکوں کی تعمیر، غیر قانونی پارکنگ کا خاتمہ، پارکنگ پلازوں کی تعمیر، انڈرپاسزاور فلائی اوورز بنانا شامل تھا لیکن اس دورانیہ میں کسی بھی پروجیکٹ کا آغاز نہیں کیا گیا۔ 

نگران حکومت صرف شفاف انتخابات اور گڈ گورننس سمیت امن وامان کی صورتحال پر توجہ مرکوز رکھ سکتی ہے یہ ذمہ داری عوامی نمائندگان کی ہے جنہوں نے اپنے ادوار میں بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل نہیں کئے بلکہ اپنے پاس ہی رکھے ۔

بلدیاتی اداروں کو فعال کئے بغیر کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر شہری ودیہی علاقوں کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوسکتے اس لئے یہ منتخب حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھاری بوجھ اپنے سروں سے اتار کر بلدیاتی اداروں کو ان کے اختیارات دیتے ہوئے فعال کریں تاکہ مسائل پر قابو پایاجاسکے۔