|

وقتِ اشاعت :   July 10 – 2018

ملک بھر میں اس وقت عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جلسے، جلوس، کارنرمیٹنگز اور ملک کے دیگر حصوں کے دورے کررہے ہیں ، سندھ،پنجاب، کے پی میں مرکزی جماعتوں کے قائدین کے بڑے جلسے منعقد ہورہے ہیں ۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے جہاں مسائل کو اجاگر کیاجارہا ہے وہیں ترقیاتی منصوبوں کو بھی گنوایاجارہا ہے ۔

اس کے ساتھ گڑھے مردے بھی اکھاڑے جارہے ہیں ویسے بھی سیاست کے حوالے سے یہ محاورہ مشہور ہے کہ مردے کو کبھی گاڑھا نہیں جاتا بلکہ اہم وقت پر اس کا استعمال کیاجاتا ہے اور بالکل اسی محاورے کے مطابق یہ تماشہ زوروں پر ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ ، مسلم لیگ ن پنجاب جبکہ پی ٹی آئی کے پی کے کے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کی مثالیں پیش کررہے ہیں۔

لیکن حقائق کسی سے ڈھکے چھپے نہیں کیونکہ ملک میں آج بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد بیروزگاری کا شکار ہے، شہریوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں، کمر توڑ مہنگائی نے لوگوں کو ادھ موا کردیا ہے ۔ ملک مختلف بحرانات کا شکار ہے ۔ جبکہ سیاستدانوں کا دعویٰ ہے کے ان کے صوبوں میں سب کچھ اچھا ہی ہوا ہے مگر ایک دوسرے کی گڈگورننس پر اٹھائے جانے والے سوالات خود تینوں صوبوں کی خوشحالی کی قلعی کھول رہے ہیں۔

ایک طرف یہ تینوں صوبے ہیں اوردوسری طرف اکیلا بلوچستان بیگانوں کی طرح کھڑانظر آتا ہے جس کی کوئی بھی سیاسی سرگرمی قومی میڈیا میں دکھائی نہیں دیتی۔ کیونکہ ملک کی تین بڑی جماعتوں کے قائدین اپنے الیکشن مہم کے دوران اس صوبے کا ذکر نہ کرکے خود اس بات کو سچ ثابت کررہے ہیں کہ بلوچستان ان کی ترجیحات میں شامل نہیں کیونکہ یہاں کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا گیا جس کی مثال دی جاسکے۔ 

اور ساتھ ہی اس بات کو بھی باور کرایاجارہا ہے کہ بلوچستان میں جو بھی کامیابی حاصل کرے گا وہ ان کے ساتھ حکومت بنانے کیلئے بآسانی راضی ہوجائینگے جس کی ماضی گواہ ہے ماسوائے ایک الیکشن کے جسے آج بھی سب سے شفاف قرار دیا جاتا ہے جو 70ء کی دہائی میں ہوئے۔ اس کے بعد بلوچستان میں کوئی بھی ایسی حکومت نہیں بنی جو وفاق کے ساتھ مشروط حکومت بناسکے۔

بلوچستان اگر وفاق کیلئے اہمیت رکھتی ہے تو صرف اور صرف ایک منافع بخش صوبے کی صورت میں جہاں سے بھرپور مالی فائدہ اٹھایاجاتا ہے ۔ مرکزی جماعتوں کی عدم توجہی کی اصل وجہ بلوچستان کی لیڈرشپ ہے جو اب تک گروہی وذاتی مفادات سے باہر نہیں نکل رہی۔ اب یہ فیصلہ بلوچستان کی لیڈرشپ کو کرنا پڑے گا کہ ان کی اور ان کے صوبے کی کتنی اہمیت ہے۔

اگر وہ اسی پرانے طرزکی سیاست کرینگے توآگے چل کر ان کی اپنی ذاتی حیثیت بھی ختم ہوجائے گی۔ جس طرح وفاقی سطح پر بلوچستان کو نظرانداز کیا جارہاہے ایک دن ایسا آئے گا کہ یہاں کے لیڈرصاحبان کو بھی کسی کھاتے میں نہیں ڈالاجائے گا۔ 


بلوچستان کی اہمیت نہ صرف ملک بلکہ خطے کیلئے بھی تسلیم شدہ ہے لہٰذا یہاں کی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی اپنی سرزمین کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بلوچستان کے مفادات کو داؤ پر نہ لگائیں اورمشروط بنیاد پر حکومت کا حصہ بن کر بہترین قانون سازی کے ذریعے بلوچستان کو پسماندگی سے نکالیں ۔

تاکہ وفاقی جماعتیں بھی اپنی توجہ بلوچستان پر مرکوز کرسکیں کہ یہاں محض کٹھ پتلی لیڈرشپ نہیں جو صرف جی حضوری اور کرسی کے حصول کیلئے یہاں کے عوام کی خواہشات کو دبانے کے ساتھ ساتھ صوبے کے وسائل کا سودا بھی کرتا ہے ۔ امید ہے کہ اس بار بلوچستان کی لیڈر شپ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائے گی بلکہ ایک انقلابی روایت قائم کرے گی۔