بلوچستان میں ترقیاتی وغیر ترقیاتی منصوبوں میں ریکارڈ کرپشن سب کے سامنے عیاں ہے، بلوچستان کی بیڈ گورننس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے اوراس کے ذمہ دار صرف سیاستدان نہیں بلکہ یہاں کی افسر شاہی کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے، گزشتہ برس جب نیب نے شواہد کی بنیاد پر چھاپہ مارا تو حکومت بلوچستان کا ایک سیکریٹری اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث پایا گیا۔
جہاں نقد رقوم برآمد ہوئی وہیں اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے جائیدادیں بلوچستان ودیگر صوبوں میں خریدے گئے جو نیب کی تحقیقات کے دوران سامنے آئے۔ ان دنوں چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال بلوچستان کے دورہ پر ہیں۔ نیب نے بلوچستان کے بند کیسز جن کے قانونی شواہد موجود ہیں انہیں میرٹ اور قانون کے مطابق دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ منصف کی کرسی کے تقدس کو سمجھتا ہوں میرٹ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا، نیب آفیسران کو مکمل تحفظ دینے اور کسی بھی دباؤ کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ نیب کرپٹ عناصر کو سی پیک سمیت قومی اہمیت کے تمام منصوبوں میں بد عنوانی سے روکنے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے اور کرتا رہیگا کیونکہ سی پیک کا منصوبہ نہ صرف پاکستان کی معاشی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے بلکہ خطے کی ترقی کے لئے بھی گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔
پٹ فیڈر کینال کیس میں کرپشن کرنے والے تمام ذمہ داران کا تعین کر کے ان سے قوم کی لوٹی ہوئی رقم بر آمد کی جائے ۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اہم منصوبوں پر گزشتہ کئی سالوں سے بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی جن میں خاص کر ریکوڈک ، سیندک سمیت اہم نوعیت کے منصوبے شامل ہیں اور ان کے پیچھے صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ کرپٹ آفیسران بھی ہیں جب تک بلوچستان میں کرپٹ آفیسران کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی عمل نہیں لائی جائے گی ۔
کرپشن کا تدارک مشکل ہوگا۔ یہ بات واضح ہے کہ سیاستدانوں کو کرپشن کے طریقے آفیسران ہی بتاتے ہیں کہ کس طرح سے منصوبوں کو تعطل کا شکار کرکے پیسے بٹورے جاسکتے ہیں۔ بلوچستان کے تقریباََ تمام محکمہ کرپشن میں ملوث ہیں اور ایسا ہی ایک سروے رپورٹ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب گزشتہ دنوں آیا تھا جس میں ایشین پیسیفک ریجن میں بلوچستان کو سب سے کرپٹ علاقہ قرار دیا گیا تھا ۔
جہاں 85فیصد بجٹ کو مالی سال کے اختتام سے قبل ہی لوٹ لیا جاتا ہے اور یہ حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔حالات یہاں تک ابتر ہیں کہ یہاں ملازمین کی بھرتیوں تک میں رشوت وصول کی جاتی ہے۔ تقرری و تبادلے کے دوران بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی جس کی وجہ سے آج تک بلوچستان میں کوئی ایک اہم منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔
اہل بلوچستان اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ ریکوڈک منصوبہ کیونکر بند ہوا اور کس طرح اربوں روپے چوری کئے گئے یہ تو صرف ایک مثال ہے اگر تمام منصوبوں کا ریکارڈ طلب کیاجائے اور شفاف طریقے سے تحقیقات عمل میں لائی جائیں تو اہم شخصیات قانون کی گرفت میں آئیں گی اور ان سے اربوں روپے قومی خزانے کو دوبارہ مل سکتے ہیں ۔
امید ہے کہ نیب کرپشن کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرکے اہم ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لاکر عبرت کا نشان بنائے گی اور سی پیک سمیت دیگر اہم منصوبوں کی کڑی نگرانی کرتے ہوئے قوم کا پیسہ کرپشن کی نظر ہونے سے بچائے گی جس کا فائدہ عام عوام کو پہنچے گا کیونکہ یہ عوام کی امانت ہے اور اس پیسے کو بھی انہی پر خرچ ہونا چاہئے۔
کرپشن فری بلوچستان
وقتِ اشاعت : July 11 – 2018