کوئٹہ: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے تمام اداروں کے آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے زر اور زور کسی مسئلے کا حل نہیں ، فوج ،عدلیہ اور سیاستدان سب اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں ۔
بلوچستان میں جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے گائے دودھ نہیں دے گی ، اقوام کو ان کے ساحل وسائل پر اختیار دینے کی آئینی گارنٹی دیکرپارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ قراردیاجائے تو ملک اور خطے میں موجود مسائل کا خاتمہ ہوگا ، بلوچ پشتونوں کے ساتھ مل کرجدوجہد کریں ، طاقت کا استعمال اورمزاحمت کسی مسئلے کا حل نہیں، چالیس سالوں میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی علماء کرام کو قرآن کا واسطہ دیتے ہیں کہ وہ متحارب گروپوں کے درمیان مفاہمت کیلئے کرداراداکریں۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز پشتون آباد میں حاجی عبدالولی کاکڑ ،سردارموسیٰ کاکڑ ودیگر کی جانب سے اپنے اعزاز میں دئیے گئے عشائیہ کے موقع پر اولسی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نواب ایاز خان جوگیزئی ،عبدالرؤف لالا ،ڈاکٹرجمیل پانیزئی ،حاجی غلام فاروق خلجی ودیگر بھی موجود تھے ۔محمود خان اچکزئی کاکہناتھاکہ سب سے پہلے تو میں ولی خان کاکڑ اور ان کے خاندان کا پروگرام کے انعقاد پر شکریہ اداکرتاہوں ،پروگرام میں شرکت کرنے والے تمام افراد کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے آکر پروگرام کو رونق بخشی ،آج کے پروگرام کا مقصد کسی کو برا بھلا کہنایا گالم گلوچ کرنا نہیں ہمیں ہر شخص کی عزت عزیز ہے۔
پشتونخوامیپ کے کارکن جانتے ہیں کہ پشتون سیال قوم کو غیر مہذب دکھانے کیلئے ڈرامہ بازی کی جارہی ہیں بلکہ اس کے لباس اور حلیہ کو بھی بدنام کیاجارہاہے،ہر وہ پشتون جو یہ وطن اپنا سمجھتاہے اور خود کو ایماندار سمجھتاہے اسے حالات کاادراک کرناہوگا جو قوم سیال نہیں ہوا کرتی اس کے نواب بھی سیال نہیں کہلائے جاتے بلکہ اس کے عالم دین ،سرمایہ دار ناسیال گردانے جاتے ہیں۔
ہمیں دنیا کو ناسیال دیکھانے کیلئے سازشیں جاری ہیں ،انسانی تاریخ میں کسی بھی قوم کی سرزمین پر 40سالہ کشت وخون اور جنگ کی نظیر نہیں ملتی ،یورپی ممالک نے 2عالمی جنگیں لڑی جن کی کل مدت 9سال بنتی ہے اور اس میں سب سے خطرناک ہتھیار بندوق ہی تھا جہاز بھی اس قدر جدید اور خطرناک اسلحہ سے لیس نہ تھے لیکن پشتون وطن پر لڑی جانے والی جنگ میں انتہائی جدید اور مہلک ہتھیاراستعمال کئے جارہے ہیں ۔
طویل جنگ کے باعث پشتون قوم کی عزت وآبرومحفوظ رہی ہے نہ ہی ان کی سرزمین ،بتایاجائے کہ پشتون قوم نے کسی کے گھر یا سرزمین پر قبضہ یا جارحیت کی ہے یا کسی کا کشت وخون کیاہے ہمیں ہمارا قصور بتایاجائے ،اس دن تک تو جنگ کو جائز قرار دیاجارہاتھا جب تک روس افغانستان میں موجود تھا روس اور امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد ایک جیتا اور دوسرا ہارا اس کے بعد تو افغانستان کو مستحکم ہوجاناچاہیے تھا۔
ڈاکٹر نجیب اللہ شہید مستعفی ہورہے تھے تو کنڑاور بولدک کے ایک ٹکڑے کے علاوہ تمام افغانستان کے تمام ادارے اور اس کی فوجیں اپنی جگہ موجود تھیں بلکہ افغانستان کے پاس سینکڑوں جہاز اور ٹینک بھی تھے ،ایک جیت چکاتھا جبکہ دوسرا ہار چکاتھا اس کے بعد تو لڑائی جھگڑے کا کوئی حیلہ بہانہ تھا ہی نہیں ،اسلامی تاریخ میں بھی یہی ہے جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم ﷺ نے کفار کیلئے عام معافی کااعلان کیا۔
افغانستان میں جیتنے والوں کو کسی کمانڈر سے شکایت تھی تو اسے ہٹا دیتے اور اپنی مرضی سے دوسرے کمانڈر کو لگایاجاتا لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ پشتون افغان ملت کو تقسیم کرکے اپنے ہی وطن کی بربادی پر لگادیاگیا اور ہر طرف سے کابل پر ہی گولہ باری اور راکٹ برسائے گئے ۔
روس کے نکل جانے کے بعد معافی یا سزا کااعلان کیاجاتاتوبہتر تھا لیکن یہ کیا کہ افغانستان کے اینٹ سے اینٹ بجادی گئی40سال گزر جانے کے باوجود بھی جنگ جاری ہے ۔ہم علماء کرام اور دیگر کو خدا اور قرآن کا واسطہ دیتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مفاہمت اور صلح صفائی کیلئے کرداراداکرے اور قرآن وحدیث کی روشنی پر مبنی فیصلہ کرے ۔
ہم کسی بھی قوم کو ناسیال دیکھنا نہیں چاہتے ہم وہ نہیں جو اپنے لئے اچھا پسند کرے اور دوسروں کیلئے تباہی وبربادی کی دعا کرے ،جس گھر میں انصاف نہ کیاجائے اس گھر کا نظام ٹھیک سے نہیں چلتا ،اگر بے انصافی کا سلسلہ چل پڑے تو پھر بھائی اور ایک ہی گھر کے افراد دست وگریبان ہوجاتے ہیں لیکن یہاں ملک کو انصاف کی بنیاد پر نہیں چلایاجارہا۔
جو میں نے کہاکہ اسی طرف آپ کو جاناہوگا یہ وطیرہ مزید چلنے والا نہیں ،پاکستان سب اقوام کا مشترکہ گھر ہے جس میں پشتون ،بلوچ،سندھی ،پنجابی سمیت دیگر اقوام اپنی سرزمین پر آباد ہے ،ہمیں زکواۃ اور خیرات نہیں چاہیے ،چاہے وہ امریکہ ،جاپان ،ہندوستان یا کوئی اور ہو ہم ہزاروں سال پر مبنی تاریخ اور خوبصورت وطن رکھتے ہیں ۔
زر اور زور کے ذریعے حکومت یا کسی اور جانب ہمیں لے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ہم بتاناچاہتے ہیں کہ فرنگی سے زیادہ طاقت ور اور وسائل رکھنے والا کوئی نہ تھا وہ بھی غریب پشتونوں کو نہ جھکاسکا ،جس بھی زور آور نے پشتون افغان ملت کے خلاف جارحیت کی ہے اور زر وزور سے کام لیاہے اسے بدترین ناکامی کاسامنا کرناپڑاہے ۔
تمام دنیا پر واضح کرناچاہتے ہیں کہ ہماری دھرتی ماں کو میلی آنکھ سے نہ دیکھاجائے جس کا جو وطن ہے وہ اسے مبارک ہوہم تمام بنی آدم ہے اگر چہ ہماری زبانیں ،کلچر اور سرزمین الگ الگ ہیں بلکہ دنیا میں مختلف مذاہب بھی ہیں ہم مذہبی آزادی کے حق میں ہے ہمارے اسلام کو نہ چھیڑاجائے ہمیں کسی اور کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہر انسان رب کے سامنے جواب دہ ہیں ہم بطور انسان کسی سے اس کی اعمال کاحساب نہیں لے سکتے ۔
ہمارے لئے ہر وہ مقام مقدس ہے جہاں رب کے نام لیوا موجودہیں ہمارے لباس کو بری نظر سے نہ دیکھاجائے ہمیں دنیااور دیگر اقوام سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کا لباس کیاہے ؟۔اپنی زبان کی عزت چاہتے ہیں اور دوسروں کی زبان کو عزت دیتے ہیں ،کسی کی حق پر قبضہ کرنا اس کے چادر اورچاردیواری کے تقدس کو پامال کرنا ہمارا شیوا نہیں نہ ہی ہم ایسا کرنے والوں کا کبھی ساتھ دیں گے ۔
اپنا حق دوسرے کو حوالے کرنا بے غیرتی ہے ہم ظلم اور بے غیرتی کے خلاف ہے ہماری دعا ہے کہ رب آئی ایس آئی اور ایم آئی کو امریکن سی آئی اے سے بھی زیادہ استعداد دیں ہمیں فوج پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ تمام ادارے آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے کام کرے ،پاکستان کے آئین میں ہے کہ جج آئین کی وفاداری اور دفاع کا حلف لے گا ۔
سیاست دان آئین ماننے اور اس کے تحفظ کا حلف لیتاہے جبکہ فوجی آئین کے احترام اور سیاست سے سروکار نہ رکھنے کا حلف رکھتے ہیں لیکن بلوچستان میں جوکچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ایک مرتبہ پھر سب کو گائے کی سواری پر متفق اور اکھٹا کیاگیاہے ہم بتاناچاہتے ہیں کہ اس گائے سے نہ دودھ ملے گا اور نہ ہی کچھ اور لوگ ہم سے انہی باتوں پر گلے اور شکوے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں نہ کرے لیکن ہم بتاناچاہتے ہیں کہ ہم کبھی بھی اس سے بازنہیں آئیں گے ۔
اسلام ہمیں حق گوئی اور سچائی کا درس دیتاہے لیکن جب میں ایک فوجی آفیسر کا نام لیا تو ایک شور وغوغا اٹھا الیکشن میں شکست کوئی خاص مسئلہ نہیں صمد خان اچکزئی نواب ایاز جوگیزئی کے دادا سمیت دیگر قد آور شخصیات کو شکست ہوچکی ہے جس کے خلاف کسی نے احتجاج نہیں کیا لیکن زر اور زور کی بنیاد پر ہم شکست کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے اور ان قوتوں کاراستہ روکیں گے جو انتخابات ہمارا راستہ روکنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
اگر ہم بے بس ہوئے تو پھر گھر بیٹھ کر بدعائیں دیں گے ،ہم پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ مانتے ہیں اور اس کیلئے عوامی طاقت سے ہی امیدوار منتخب ہوتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ ہم نے روز اول سے ہی ہمسایہ ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنانے کی بات کی ہے جب تک افغانستان میں مداخلت ہوتی رہے گی پاکستان میں امن کا قیام ممکن نہ ہوگا۔
ہم پاکستان کے مخالف نہیں نہ ہم پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں ،ڈیورنڈ لائن کے اُس پار افغانستان جبکہ اس پار پاکستان ہے ،افغانستان کے ساتھ تمام مسائل کا حل بات چیت سے نکالاجائے افغانستان اپنی خودمختاری کی ضمانت چاہتاہے اگر بین الاقوامی طاقتوں کی موجودگی میں افغانستان کو ضمانت دیدی جائے تو تمام معاملات بہتری کی جانب گامزن ہونگے بلکہ ڈیورنڈ ہوگا اور لوگ اس کے آرپار دونوں ممالک میں بلاخوف آتے اور جاتے رہیں گے ۔
پاکستان میں آباد تمام اقوام کو آئینی ضمانت دینا ہوگی کہ پشتون سرزمین اور اس میں پائے جانے والے وسائل پر پشتون ،سندھ کی سرزمین اور وسائل پر سندھیوں ،پنجاب کی سرزمین اور وسائل پر پنجاب کے لوگوں اور بلوچستان کی سرزمین پر بلوچستان کے عوام کوواک واختیار حاصل ہوگا ،یہ ضمانت تمام اقوام کو دینا ہوگی ایسا کیاجائے تو تا قیامت پاکستان کو زندہ باد کہیں گے ۔
اسلامی تعلیمات نے غلامی کو دوسروں کی پرستش قراردیاہے اس کے خلاف جدوجہد کرنا انبیاءؑ کی سنت ہے ،ہمیں کسی کی خیرات اور زکواۃ کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہم اپنے حقوق چاہتے ہیں ،آئیں پاکستان کو مل کر بنائیں اس کیلئے ہمیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو فروغ دیناہوگا بلکہ تمام اقوام کو ان کے حقوق دینا ہونگے۔
،ہم بلوچ بھائیوں سے بھی کہناچاہتے ہیں کہ وہ آئیں ہمارے ساتھ مل کر جدوجہد کریں زور زبردستی اور مزاحمت کسی مسئلے کا حل نہیں سونے سے لبریز سرزمین کا مالک بلوچوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں ہمارے ساتھ مل کر جمہوری انداز میں جدوجہد کرے تاکہ بلوچ پشتون اور دیگر اقوام کو ان کے ساحل وسائل پر اختیاردلاجاسکے ،انہوں نے کہاکہ یہاں ہم بلوچ پشتون اور دیگر اقوام کی آبادی پنجاب کے ایک ضلع کی آبادی کے برابر ہے جبکہ سرزمین ہماری قدرتی نعمتوں سے لبریز ہے ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دونوں اقوام کسمپرسی ،بھوک وافلاس کے تحت زندگی بسرکررہے ہیں ،اب بھی حالت یہ ہے کہ کسی بلوچ کے پاس تن چھپانے کیلئے کپڑے نہیں ہے اگر پشتون بلوچ مل کر جدوجہد کرے تویہ بدحالی ختم ہوسکتی ہے زورزبردستی کی بجائے اولس کی طاقت سے سب کچھ ممکن ہوسکتاہے۔
انتخابات کی آمد آمد ہے کارکنوں کو اس سلسلے میں اپنی جدوجہد کو مزید تیزکرناہوگا 5بادشاہ ووٹ کاسٹ کرے تو ان کے مقابلے 7غریب خواتین کے ووٹ زیادہ ہے ،انتخابات میں ہمارے نامزد امیدواران کی ہار ہو یاجیت سے سروکار نہیں تاہم ہم اپنی جدوجہد بہر صورت جاری رکھیں گے ۔
پشتون سے بڑھ کر کوئی باصلاحیت نہیں بلکہ اب تو قوم سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ،ڈاکٹرز انجینئر اور دیگر تعلیم یافتہ نوجوان رکھتے ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں بہترین انداز سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ،پشتون غیور عوام کی سرزمین دنیا جہاں کی معدنیات سے مالا مال ہے اس غیور قوم کو لوگ ناسیال اقوام کی فہرست میں شامل کرکے ان کی سرزمین قبضہ کرناچاہتے ہیں ۔
ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم یہ بات کرتے ہیں اور ہماری اجتماعات اسی لئے بھی لوگوں کو اچھی نہیں لگتی کہ ہم کہتے ہیں کہ پشتونخوا پشتونوں کا ہے اس پر واک واختیار پشتونوں کی ہی ہوگی اس بات سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگے چاہیے ہماری زبانیں کاٹی جاتی ہے یا کوئی اور سزا دی جاتی ہے ۔
ہمیں کسی صورت دوسروں کااختیار قابل قبول نہیں اسی مقصد کیلئے ہماری جماعت بنائی گئی ہے ہم پاگل پن کے شکار ہے نہ ہی کسی کے ساتھ لڑائی چاہتے ہیں بلکہ ہم انسان کے طور پر زندگی گزارناچاہتے ہیں ،انہوں نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے تحفظات کااظہار کیا اورکہاکہ غلط حلقہ بندیوں کا مقصد صرف پشتون قوم کو انتخابات میں شکست سے دوچار کرناہے ۔
اپنوں سے الجھنا نہیں چاہتے جو لوگ مختلف چوراہوں پر کھڑے ہوکر ہمیں برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ نادان ہے ۔ہم قوم کو متحد رکھنا چاہتے ہیں اس کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے ۔اگر ہم انتشار کا شکار رہے تو اس سے بھی زیادہ تباہ کن صورتحال سے دو چار ہونگے ۔
گائے دودھ نہیں دے گی، اقوام کو انکے وسائل پر اختیار دینے سے مسائل حل ہونگے ، محمود اچکزئی
وقتِ اشاعت : July 12 – 2018