بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک انتخابی جلسہ پر ہونے والے بم حملے میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار سراج رئیسانی سمیت کم از کم80سے زائد افراد جاں بحق جبکہ زخمی ہو نے والوں کی تعداد سو سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں سے متعدد کی حالت انتہائی نازک ہے اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے ۔
حکام کے مطابق جمعے کو ہونے والے اس حملے میں حال ہی میں بننے والی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی کو نشانہ بنایا گیا۔سراج رئیسانی کے بھائی اور سابق سینیٹر لشکری رئیسانی نے بی بی سی سے گفتگو میں اپنے بھائی کی موت کی تصدیق کی۔
ضلع مستونگ کے انتظامیہ کے مطابق دھماکہ کوئٹہ سے تقریباً 35 کلومیٹر دور جنوب مغرب میں کوئٹہ تفتان شاہراہ کے قریب واقع درینگڑھ کے علاقے میں ہوا جہاں صوبائی اسمبلی کے حلقہ بی پی 35 سے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی ایک انتخابی جلسے میں شرکت کر رہے تھے۔اسی حلقے میں اسلم رئیسانی اپنے بھائی کے مد مقابل آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔
سراج رئیسانی کو اسلم رئیسانی کے دور حکومت میں بھی نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ خود بچ گئے تھے البتہ ان کا بیٹا اکمل جاں بحق ہو گیا تھا۔یہ بلوچستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں انتخابی جلسوں پر تیسرا حملہ ہے۔ خضدار میں بی اے پی کے دفتر کے قریب دھماکہ ہوا جس میں دو افراد زخمی ہوئے۔حب کے علاقے میں تحریک انصاف کی کارنر میٹنگ پر دستی بم سے حملہ کیاگیا جس میں دو افراد زخمی ہو گئے ۔
جمعے کو ہی خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اکرم خان درانی کے قافلے پر حملے میں تین افراد جاں بحق اور 39 زخمی ہوئے تاہم سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی محفوظ رہے ۔ضلع خاران میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار عبدالقادر بلوچ کے الیکشن سیل پر نامعلوم مسلح افراد نے دستی بم سے حملہ کیا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس سے قبل پشاور کے علاقہ یکہ توت میں اے این پی کے امیدوار ہاورن بلور کو خود کش حملہ کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ شہید ہوئے۔ ملک میں ایک طرف عام انتخابات کی گہما گہمی عروج پر ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کے واقعات میں بھی تیزی آگئی ہے۔
عام انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے انتخابی سرگرمیوں کو دہشت گردوں نے اپنے ہدف پر رکھا ہے جس کا اندازہ گزشتہ چند روز کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلارہے ہیں ۔
ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے سیاسی جماعتوں میں بے چینی پیدا کردی ہے کیونکہ اب ان کیلئے انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگیا ہے ،متواتر دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے عوام میں بھی شدید خوف وہراس پھیل چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں عوام کی شرکت کے بغیر انتخابی مہم بے معنی ہے ۔
نگران حکومت کی ترجیحات میں عام انتخابات کی شفافیت اور امن وامان کی صورتحال کو بہتر بناناہے مگر جس طرح سے دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں یہ حکومت کیلئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ ضلع مستونگ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ، اسی ضلع اور علاقے درینگڑ ھ میں اس سے قبل بھی متعدد دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں جس کے پیچھے شدت پسندتنظیمیں ملوث رہی ہیں ۔
ایسے حساس علاقے میں الیکشن مہم کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات پہلے سے ہی کی جانی چاہئیں تھیں تاکہ اس طرح کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ اس اندوہناک واقعے کے بعداس حلقہ میں ہونے والے الیکشن کو ملتوی کردیا گیا ہے اور کچھ قوتیں یہی چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح انتخابات کو ملتوی کیا جائے ۔
اب زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ وفاقی نگران حکومت فوری طور پر سیکیورٹی کا ازسرنوجائزہ لینے کیلئے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کرے اور حساس علاقوں میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات مزید سخت کیے جائیں تاکہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کے امیدوار بلا کسی خوف کے عوامی اجتماعات کا انعقاد کرسکیں۔
اور دہشت گردوں کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ عام انتخابات پُرامن طریقے سے انجام پاسکیں اور انتقال اقتدار کے حوالے سے کسی قسم کے شکوک وشہبات کو پنپنے کا موقع نہ مل سکے ۔