|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2018

بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں خود کش حملے میں 21 مزید افراد کی موت کی تصدیق ہونے کے بعد شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 149 ہو گئی ہے۔

ڈپٹی کمشنر مستونگ قائم خان لاشاری نے اس کی تصدیق کردی ہے، ڈپٹی کمشنر کے مطابق بعض لوگوں نے شہید ہونے والے اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو ہسپتال پہنچانے کے بجائے جائے وقوعہ ہی سے اپنے گھروں کو لے گئے تھے۔ان کاکہنا ہے کہ شہید اور زخمی ہونے والے افراد کے ڈیٹا کو مکمل کیا گیا۔ شہید ہونے والوں میں 9 بچے بھی شامل ہیں۔ 

درینگڑھ میں خود کش حملے سے قبل انتخابی جلسے کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں بچے بھی جلسہ گاہ میں واضح طورپر نظر آرہے ہیں۔خود کش حملہ آور نے سراج رئیسانی کی تقریر کے دوران اسٹیج کے قریب خود کو دھماکہ سے اڑادیا۔

دوسری جانب نگران وزیراعظم، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان نے بھی کوئٹہ آکر شہداء کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔ بلوچستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں یہ سب سے بڑا حملہ ہے جو عوامی اجتماع پر کیا گیا ۔ دہشت گردی کے اس واقعہ کے بعد بلوچستان میں جہاں سوگ کا عالم ہے ،وہیں انتخابی سرگرمیاں بھی محدود ہوگئی ہیں۔

مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی مہم کو معطل کردیا ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ خدانخواستہ پھر دوبارہ کسی عوامی اجتماع کو نشانہ نہ بنایاجائے ۔ دوسری جانب عوام بھی شدید خوف میں مبتلا ہے اور وہ بھی انتخابی جلسوں میں جانے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔ 

عمران خان نے مستونگ واقعہ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ اس سانحہ کے پیچھے بیرونی قوتوں سمیت ملک کے اندر موجود دشمن بھی ملوث ہیں اور ان کا مقصد انتخابی عمل کو متاثر کرنا ہے تاکہ ملک میں عام انتخابات اپنے مقررہ مدت میں نہ ہوسکیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کومنہ توڑ جواب دینے کیلئے انتخابی مہم کو نہ روکا جائے بلکہ سیکیورٹی انتظامات کو بہتر بنایاجائے۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے جہاں سانحہ مستونگ کی مذمت کی وہیں انہوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ کالعدم تنظیموں کے جھنڈے جو اس وقت کوئٹہ شہر میں نظرآرہے ہیں ، اس سے ملکی امیج پر برے اثرات مرتب ہونگی کیونکہ 2013ء کے دوران کالعدم تنظیموں نے کچھ سیاسی جماعتوں کو اپنا فیورٹ قرار دیا تھا اگر 2018ء میں بھی اسی عمل کو دہرایا گیا تو یہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں کالعدم تنظیموں کے خلاف یکجا ہوکر ان کی مذمت کریں۔ 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مستونگ واقعہ کے بعد سیکیورٹی معاملات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اس وقت بلوچستان سمیت ملک میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے اگر اس معاملے کو نظرانداز کیا گیا تو آگے چل کر مزید مشکلات پیدا ہونگی۔ 

ضروری ہے کہ سیاسی شخصیات سمیت عوام کی سیکیورٹی کیلئے جامع منصوبہ بندی کی جائے اور سرحدوں کی کڑی نگرانی کی جائے تاکہ دہشت گرد ی کے واقعات کو روکا جا سکے۔