بلو چستان میں پانی کی سطح 1300 سو فٹ تک گر چکی ہے،ماہر ین نے خبردار کیاہے کہ چند سال میں مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے ۔گزشتہ روز پانی کے مسئلے پر ایک سیمینار منعقد ہواجس میں گورنر بلوچستان، نگران وزیراعلیٰ سمیت ماہرین نے شرکت کی۔
سابق سیکرٹری پی ایچ ای کا کہنا تھا کہ پانی کا مسئلہ پوری دنیا میں ہے ،بارشیں نہ ہو نے کے باعث بلو چستان میں لو گوں کا انحصار زیر زمین پانی پرہے ،کو ئٹہ شہر میں غیر قانونی ٹیوب ویلز اور زیر زمین پانی زراعت کے لئے استعمال کر نے پر پابندی کی سفارش کی ہے۔ماہر ین کا کہنا ہے کہ اگر کو ئٹہ ،نوکنڈی اور دیگر علا قوں میں پانی کی سطح کنٹرول کر نے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو مستقبل میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب گورنر بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہمارے محکموں کے پاس تحقیق کیلئے بہتر مواد موجود ہیں،پانی کے تحفظ کیلئے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر بڑے ڈیموں کا بننا ناگزیرہے،کسان وہی فصل استعمال کریں جن کو کم پانی کی ضرورت ہوجبکہ متعلقہ محکمے سیلابی پانی کو محفوظ اور قابل استعمال بنانے کیلئے قابل عمل منصوبے بنائیں ۔
نگراں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اورصوبے میں پانی کی سطح کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے اس لئے ضروری ہے کہ پانی کے ضیاع کو روکا جائے ،پانی بحران کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی ٹیوب ویلز بھی ہیں۔ اس سے قبل بھی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ کوئٹہ میں پانی کی زیر زمین سطح 1300فٹ تک گر چکی ہے۔
شہر میں 2200سے زائد غیر قانونی ٹیوب ویلز ہیں اور بڑھتی آبادی کے سبب شہر میں شدید آبی بحران ہے۔وفاقی حکومت نے سال 2007میں پٹ فیڈر کینال سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کا آغاز کیا اور اس کیلئے ساڑھے چار ارب روپے مختص کئے، منصوبے کو پانچ سالوں میں مکمل کیا جانا تھا،محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق فزیبلٹی رپورٹ تیار ہونے سے قبل ہی منصوبے پر کام شروع کیا گیا،بعدازاں منصوبہ پر عملدرآمد میں مشکلات کے باعث کام روک دیا گیا۔
2014تک منصوبے پر عملدرآمد نہ ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو ختم کردیا ، گزشتہ حکومت نے کوئٹہ میں پانی کی قلت دور کرنے کیلئے سالانہ بجٹ 2015۔16میں پٹ فیڈر کینال سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کے میگا پروجیکٹ کا اعلان کیا اور منصوبے کیلئے 10ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی، ابتدائی طو ر پر منصوبے کیلئے 1ارب روپے جاری کئے گئے،تاہم یہ رقم خرچ نہ ہوسکی اور واپس حکومتی خزانہ میں چلی گئی۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے دورہ چین کے موقع پر اس میگا منصوبے کو سی پیک میں شامل کیا گیا، بدقسمتی سے اب تک پٹ فیڈر کینال منصوبے پر عملدرآمد تو دور کی بات منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار نہیں کی گئی ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں پانی کا مسئلہ انتہائی گھمبیر صورت اختیار کرچکا ہے جس سے مختلف اضلاع میں قحط سالی کا سامنا ہے۔ اس کی وجوہات صرف ناقص منصوبہ بندی اور عدم توجہی ہے ۔
گزشتہ حکومت کے دوران گوادر میں مصنوعی بارش برسانے کا اعلان کیا گیا اور اس تجربہ کی کامیابی کے بعد دیگر اضلاع میں بھی مصنوعی بارشیں برسانے کا پروگرام تھا تاکہ پانی کے بحران سے نمٹا جاسکے جس کیلئے انٹرنیشنل ادارے سے بات چیت بھی ہوئی مگر اب تک اس حوالے سے کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند سالوں کے دوران بلوچستان میں بہت بڑی قحط سالی کا خطرہ ہے اور اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے عوام نقل مکانی پر مجبور ہونگے اس لئے صرف کاغذی اورزبانی طور پراس اہم مسئلے کو نہ لیاجائے بلکہ اس پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
ڈیموں کی تعمیر کیلئے سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ اس بحران سے نمٹاجاسکے اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو عوام کی بڑی تعداد پانی کی کمی کی وجہ سے اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونگے اور علاقے صحرا کا منظر پیش کرینگے۔اس وقت بلوچستان میں اہم مسئلہ پانی کا ہے جو سیمیناروں سے حل نہیں ہوسکتا بلکہ سنجیدگی اور متعلقہ محکموں کی دیانتداری سے ہی پانی کے بحران پر قابوپایاجاسکتا ہے۔