|

وقتِ اشاعت :   July 20 – 2018

میڈ یا کو ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے جو اس وجہ سے ہے کہ یہ عوام کے مسائل کو حقائق کے ساتھ ،تحقیق کے بعد مکمل طور پر غیر جانبدارہوکراجاگر کرتا ہے اور ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتا ہے مگربدقسمتی سے گزشتہ کئی عرصوں سے روایتی میڈیا نے جس طرح کارویہ اپنایا ہے اس پرسے جہاں عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے وہیں حقیقی سیاستدان بھی میڈیا کی جانبداری سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ 

بلوچستان ملک کے بڑے میڈیا ہاؤسز کی نظروں سے بالکل اوجھل ہوچکاہے اور وہ بلوچستان کے معاشرتی، سماجی معاملات سے بالکل بے خبر ہے۔ البتہ ٹی وی ٹاک شوز میں بلوچستان کے مسائل پر گھنٹوں تبصرہ کیاجاتا ہے جو صرف سطحی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ بلوچستان سے متعلق ملک کے دیگر حصوں میں جو سوچ پائی جاتی ہے اس کی وجہ میڈیا ہے ۔

بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جبکہ ملکی سیاسی جماعتوں کے قائدین صرف کوئٹہ تک ہی محدود ہیں دیگر علاقوں سے واقفیت نہیں رکھتے ،اسی طرح دیگر صوبوں کے عوام کی معلومات بھی انتہائی محدود ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ دار یہاں کے قبائلی معاشرے کو ٹھہرایا جاتا ہے ، تحقیق کے بغیرحقائق کو مسخ کرکے سرداری نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسے ترقی دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔

عوام کی پسماندگی اور بنیادی سہولیات سے محرومی کی ذمہ داری بھی سرداری نظام پر ڈالی جاتی ہے۔ ملک میں جتنی بھی جمہوری وغیرجمہوری حکومتیں بنیں، ان کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے، مرکز میں بننے والی حکومتوں کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ ان کے ساتھ بلوچستان میں حکومت بنانے والے بااثر شخصیات شامل ہوں خواہ وہ کوئی بھی جماعت ہو سب نے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالا۔ 

بلوچستان کی تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ایسے سردار بھی بلوچستان میں ہیں جنہوں نے اقتدار کی بجائے حقیقی بنیادوں پر سیاست کی اوراپوزیشن میں رہے گوکہ ان کی تعداد کم ہے ، ان سے متعلق ہمارا میڈیا کچھ نہیں کہتا جو سرداروں کا روشن چہرہ ہے۔ دوسری طرف بلوچستان کے ایسے اضلاع کی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے جہاں کے سردار ہمیشہ حکومتوں میں رہے مگر وہاں کسی قسم کی ترقی آپ کو دیکھنے کو نہیں ملے گی ۔

جس کے ذمہ دار ایک طرف یہاں کے نمائندے ہیں تو دوسری طرف وفاقی حکومت بھی اتناہی اس ناانصافی کے گناہ میں شریک ہے۔ بلوچستان کی حقیقی مقامی پرنٹ میڈیا نے ہمیشہ غیر جابندار ہوکر یہاں کے مسائل کو صحیح معنوں میں اجاگر کیا۔

ملک کے دیگر حصوں تک بلوچستان کے مقامی میڈیا کی رسائی نہ ہونے کی وجہ ان کی کمزور معیشت ہے کیونکہ ان کے حصہ کے اشتہارات بھی دیگر صوبوں کے بڑے میڈیا ہاؤسز لے جاتے ہیں مگر اس کے بدلے میں بلوچستان کے حقیقی مسائل، اس کی وجوہات اور اسباب کوکوریج دینے سے گریزاں ہیں ۔

انہیں صرف بلوچستان کی بدامنی اورغلط تصورات پر مبنی تصویر کا صرف ایک رخ نظرآتا ہے۔ روایتی میڈیا سے بلوچستان کو ہمیشہ شکایت رہی ہے مگر اس کا ازالہ نہیں کیا جاتا ۔ اہم میڈیا ہاؤسز جس طرح دیگر صوبوں کو ترجیح دیتے ہیں اتنا ہی حق بلوچستان کا بھی بنتا ہے ۔

لہذا ضروری ہے کہ یہ اپنی ذمہ داریوں کو غیر جانبدارانہ طریقے سے نبھاتے ہوئے بلوچستان کے مسائل کو بھی اجاگر کریں، یہاں کے عوام کی آواز کو پورے پاکستان تک پہنچا دیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں۔