|

وقتِ اشاعت :   July 24 – 2018

عام انتخابات کی تیاریاں سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں زورو شور سے جاری رہیں، تینوں صوبوں میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن ، متحدہ مجلس عمل جو مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے کی جانب سے بڑے بڑے جلسے جلوس ، ریلیاں، کارنرمیٹنگز کا انعقاد کیا گیا اور عوام کی بڑی تعدادبھی اس میں شریک رہی مگر بلوچستان میں انتخابی مہم انتہائی سرد مہری کا شکار رہی۔ 

2018ء کے عام انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے جب زور شور سے پارٹی منشور کا اعلان کیا گیا تو محسوس کیاجارہا تھا کہ اسی طرح جلسے جلوس ، ریلیاں اورکارنرمیٹنگز کا انعقاد بھی بھرپور طریقے سے کیاجائے گا مگر بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں نوابزادہ سراج رئیسانی کے جلسے کے دوران خود کش حملہ کیا گیا جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 150 افراد شہیدجبکہ 180 کے قریب لوگ زخمی ہوئے ، اس واقعے کے بعد اہل بلوچستان ابھی تک سکتے میں کے عالم میں ہیں ۔ 

ملک کے بڑے میڈیا ہاؤسز سانحہ مستونگ کو نظرانداز کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے انتخابی مہم اور الیکشن ٹرانسمیشن چلانے میں مصروف رہے جیساکہ بلوچستان میں کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ اسے معمول کا ایک واقعہ سمجھ لیا گیا۔ 

مگر سیاسی اور عوامی ردعمل نے میڈیا ہاؤسز کی توجہ اس جانب مبذول کرائی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک میڈیا ہاؤس نے باقاعدہ ٹرانسمیشن کے دوران بلوچستان کے عوام سے معافی مانگی پھر اس کے بعد اس واقعہ کو نیوز بلیٹن کے ہیڈلائن میں شامل کیا جس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ، نگران وزیراعظم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے کوئٹہ کا رخ کیا اور سانحہ کے شہداء کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ 

مگرافسوسناک امر یہ ہے کہ روایتی میڈیا نے سانحہ مستونگ کو جس طرح نظرانداز کیا،اس نے اس کے دوغلا پن کو نمایاں کردیا کیونکہ ملک کے دیگر حصوں میں فائرنگ، ڈکیتی، قتل یا معمولی آگ لگنے کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اسے فوری طور پر بریکنگ نیوز کا حصہ بنایا جاتا ہے لیکن بلوچستان کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہاہے، بلوچستان کے اہم مسائل پر کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ گفتگو نہیں کی گئی اور نہ ہی ان پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا جس کی وجہ سے بلوچستان شدت پسندی، معاشی بدحالی سمیت کرپشن کا شکار رہی ہے۔ 

انہی رویوں کے باعث بلوچستان ہمیشہ شکوہ کناں رہا ہے۔جہاں تک عام انتخابات کی گہما گہمی کی بات ہے تو بلوچستان میں انتخابی مہم مکمل سرد مہری کا شکار رہی۔ گزشتہ روز ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں سیاسی جماعت کے انتخابی دفتر پر بم حملے میں 25 افراد زخمی ہوئے اسی طرح ضلع آواران میں ایک امیدوار کے قافلے پر حملہ کیا گیا جوآزاد حیثیت سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑرہے ہیں ۔

اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہے تاہم تین افراد زخمی ہوئے۔بلوچستان میں دہشت گردی کے پیش نظر سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی مہم کو انتہائی محدود کردیا۔ آخری روز بھی کوئی گہماگہمی دکھائی نہیں دی البتہ صرف پریس کلبوں کی حد تک شمولیتی اور دستبرداری کے سادہ تقاریب منعقد ہوتے رہے اور اس میں بھی سیاسی ورکرز نہ ہونے کے برابر تھے ۔دوسری جانب عوام بھی شدید خوف وہراس میں مبتلا ہیں جو کہ ایک اچھا عمل نہیں۔ 

نگران حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ انتخابات کے دوران تمام صوبوں خاص کر حساس علاقوں میں سیکیورٹی کے پیشگی انتظامات کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی اجتماعات اور امیدواروں کی سیکیورٹی بھی یقینی بناتی مگر افسوس اس پہلو کو بالکل نظرانداز کیا گیا جس کے اثرات انتخابی مہم پر پڑے۔ امید ہے کہ 25 جولائی کو سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے جائینگے تاکہ کوئی نا خوشگوار واقعہ رونما نہ ہو اور عوام بلا خوف و خطر اپناووٹ استعمال سکیں۔