|

وقتِ اشاعت :   July 25 – 2018

کوئٹہ سمیت صوبہ بھر میں 4400 پولنگ اسٹیشن میں سے 3500 پولنگ اسٹیشن کو حساس قرار دیا گیا ہے ، حساس پولنگ اسٹیشنوں پر 1700 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں جبکہ صوبہ بھر میں 60 ہزار سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن پر اپنے فرائض سرانجام دینگے۔

بلوچستان میں ماضی کے عام انتخابات کی نسبت اس بار صوبہ میں مرکزی جماعتوں کا کردار کم نظرآرہا ہے البتہ پی ٹی آئی نے چند حلقوں میں مضبوط امیدوار میدان میں اتارے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی پوزیشن اتنی مضبوط دکھائی نہیں دے رہی۔

دلچسپ امریہ ہے کہ بلوچستان کی اہم سیاسی شخصیات صوبائی سطح پر تشکیل کردہ نئی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جو ماضی میں ہمیشہ ن اور ق لیگ کے پلیٹ فارم سے حصہ لیتے آئے ہیں اورمخلوط حکومت کا حصہ بنے ہیں ۔گزشتہ دو ادوار کے دوران مرکزی جماعتوں نے بلوچستان میں حکومت بنائی مگر اس بار اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ 

گزشتہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والے لیگی ارکان نے اپنی نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھ دی ہے بعض حلقوں میں بحث چل رہی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئے گی مگر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بار بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں خاص کر بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے بھی مضبوط امیدوار کھڑے کئے ہیں اور ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ 

یہ بات تو طے ہے کہ بلوچستان میں سادہ اکثریت کسی جماعت کو حاصل نہیں ہوگی 2008ء میں پیپلزپارٹی نے چند اراکین پر مشتمل مخلوط حکومت بنائی اسی طرح 2013ء میں مسلم لیگ ن نے آزاد امیدواروں کی شمولیت، ق لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت بنائی۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ادوار میں وہی چہرے وزارتوں پر براجمان نظر آئے اور اس بار بھی سیاسی منظر نامہ کچھ بدلتا نظر نہیں آرہا۔ 2008ء میں جمعیت علمائے اسلام جو حکومت کا حصہ بنی تھی 2013ء میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئی مگر مسلم لیگ ن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں جمعیت علمائے اسلام نے منحرف ارکان کا ساتھ دیا،اب جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

یہ گمان بھی کیاجارہا ہے کہ ایم ایم اے اگر بلوچستان میں چند نشستیں نکالنے میں کامیاب ہو گئی تو اس بار وہ بھی مخلوط حکومت کا حصہ بنے گی۔ نیشنل پارٹی ، پشتونخواہ میپ اور مسلم لیگ ن چند نشستیں جیت بھی جائیں تب بھی ان کی حکومت بننے کی کوئی امید نہیں دکھائی دے رہی۔ 

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے اس بار اگر اچھی پوزیشن حاصل کی تو انہیں وہی اتحادی درکار ہونگے جو اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ ہیں جس میں متحدہ مجلس عمل، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، پی ٹی آئی شامل ہیں ۔اس کے علاوہ آزاد امیدواروں کی حمایت بھی درکار ہوگی ۔ 

بلوچستان اسمبلی 65 ارکان پر مشتمل ہے جس میں حکومت سازی کیلئے 33 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کی پوزیشن یہ نہیں ہے کہ وہ سادہ اکثریت حاصل کرسکے۔ 

اس لئے دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی حمایت درکار ہوگی۔ آج انتخابات ہورہے ہیں آئندہ پانچ سال کے لیے بلوچستان میں کس کی حکومت ہوگی، اس کا فیصلہ انتخابی نتائج کرینگے۔