بلوچستان میں عام انتخابات 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی نے سب سے زیادہ15 نشستیں حاصل کرکے اول نمبر پر رہی۔ متحدہ مجلس عمل8کے ساتھ دوسری جبکہ بی این پی مینگل 7نشستوں کے ساتھ تیسری پوزیشن پر رہی۔
آزاد امیدواروں نے 5، پی ٹی آئی 4، عوامی نیشنل پارٹی 3، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بی این پی عوامی2،جبکہ جمہوری وطن پارٹی،مسلم لیگ ن اورپشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ایک ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ بلوچستان میں انتخابی نتائج واضح ہونے کے بعد اب حکومت سازی کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطوں کا سلسلہ شرو ع ہوگیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین نے بلوچستان کی بننے والی مخلوط حکومت میں شامل ہونے کا عندیہ پہلے ہی دیدیا ہے اور عمران خان نے بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی مینگل کو زیادہ نشستیں لینے پر مبارکباد بھی پیش کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی یا بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل سے صوبے کا نیا وزیراعلیٰ بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ سردار اختر مینگل قومی اسمبلی کا رخ کرینگے یا پھر صوبے میں وزیراعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہونگے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کو حکومت بنانے کے لیے33 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی، بی این پی عوامی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اس وقت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے قریب ہیں اور ان کی حمایت باآسانی مل سکتی ہے جبکہ متحدہ مجلس عمل جوحالیہ انتخابات میں بلوچستان کی دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے ، اس کی بھی حمایت درکارہوگی ۔اس کے علاوہ پانچ آزاد امیدواروں کو بھی حکومت میں شامل کرنا پڑے گا۔
اسی طرح کا معاملہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ ہے یہ بھی سیاسی جماعتوں کی حمایت بغیر حکومت نہیں بناسکے گی۔ عمران خان نے بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی مینگل کو ساتھ حکومت بنانے کی دعوت دی ہے مگر اب تک دونوں جماعتوں کی جانب سے کوئی واضح جواب سامنے نہیں آیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی دونوں پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر رضا مند ہوسکتے ہیں مگراصل معاملہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے چناؤ کا ہے ۔
اگر سردار اختر مینگل وفاق کا رخ کرینگے تو جام کمال خان کے لیے پھر کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی اور وہ بآسانی وزیراعلیٰ بنیں گے اور بی این پی مینگل مخلوط حکومت کا حصہ بن جائے گی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل 1997ء کے بعد 2018ء میں اس پوزیشن میں آئی ہے کہ اسے زیادہ نشستیں ملی ہیں۔
یہ موقع بی این پی مینگل کو اکیس سالوں کے بعد ملا ہے کہ وہ بلوچستان حکومت کا حصہ بن سکتی ہے اب اس کا فیصلہ پارٹی قیادت نے کرنا ہے کہ وہ حکومت میں شامل ہو یا پھر اپوزیشن نشستوں پر بیٹھ جائے۔ دوسری طرف بلوچستان عوامی پارٹی حکومت بنانے کیلئے پُرعزم ہے اور پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کرکے مخلوط حکومت بنانے کیلئے کوشاں ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی پوری کوشش ہوگی کہ بی این پی مینگل اور بلوچستان عوامی پارٹی دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت بنائیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی کوششوں میں کس حد تک کامیاب ہوگی یا پھر بلوچستان عوامی پارٹی اور پی این پی مینگل ایک دوسرے کے بغیر دوسری سیاسی جماعتوں اورآزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرکے مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کرینگی۔
بلوچستان میں مخلوط کون سی جماعت بنائے گی؟
وقتِ اشاعت : July 28 – 2018