|

وقتِ اشاعت :   July 30 – 2018

ملک میں عام انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے ہیں لیکن ان پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اور کئی حلقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی جانب سے دوبارہ گنتی کی درخواستیں دی جا رہی ہیں۔ 

ملک میں انتخابات کو مانیٹر کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے انتخابات پر اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ قومی اسمبلی کی 35 نشستوں پر جہاں کانٹے کا مقابلہ تھا، وہاں مسترد کی گئی ووٹوں کی تعداد ان ووٹوں سے زیادہ تھی جن کے مارجن سے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ ان میں پنجاب کے 24 ، خیبر پختونخوا کے چھ، سندھ کے چار اور ایک حلقہ بلوچستان کاشامل ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی نتائج کے حوالے سے تحفظات دور کرنے میں تعاون کرنے پرتیار ہے۔آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے کے اعلان پر پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ تو پہلے ہی ان جماعتوں کو حلقے کھلوانے اور تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کر چکے ہیں۔

بنیادی طور پر یہ معاملہ تو الیکشن کمیشن اور ان سیاسی جماعتوں کے درمیان ہے لیکن اگر انہیں پاکستان تحریک انصاف سے بطور حکمران جماعت کوئی مدد چاہیے تو وہ تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں پورے اتفاق رائے کے ساتھ منعقدہ انتخابات کو مسترد کرتی ہیں کیونکہ یہ عوام کا مینڈیٹ نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ہے۔

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی عام انتخابات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے جن نشستوں پر ہمارے مضبوط امیدواروں کی کامیابی متوقع تھی انہی پر شکست کا سامنا کرناپڑا ہے۔ 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ انتخابات میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے حلقوں کو کھولنے کی تحریک انصاف نے جوپیشکش کی ہے ۔

حکومت بنانے کے بعد وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے کیونکہ گزشتہ حکومت کے دوران عمران خان کے یہی تحفظات تھے اور چار حلقوں کو کھولنے کیلئے انہوں نے ملک گیر جلسے جلوس کئے اور اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا ۔ موجودہ صورتحال بھی اسی جانب جارہی ہے جہاں سیاسی جماعتوں نے احتجاج کرنے کافیصلہ کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کی خاطرجن حلقوں پر تحفظات کا اظہار کیاجارہا ہے انہیں کھولاجائے تاکہ جمہوری عمل میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ 

امید کی جارہی ہے کہ عمران خان نے اپنے خطاب کے دوران حلقوں کو کھولنے کی پیشکش کی ہے اسے پورا کرکے سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرینگے اور تمام سیاسی جماعتوں سے امید ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کا مکمل احترام کریں گے ۔