|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2018

کوئٹہ+ اسلام آباد: ء ایوان بالاء کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑکی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ 

فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں 12 جولائی2017 کو کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے علاوہ ایچ ای سی کی مجموعی کارکردگی ، مختص اور استعمال شدہ بجٹ ، سکالر شپ ،تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف منصوبہ جات اور پسماندہ علاقوں میں مختلف تعلیمی منصوبہ جات اور مسلم باغ یونیورسٹی ، موسیٰ خیل کی لائیو سٹاک یونیورسٹی اور زیارت میں فاریسٹ یونیورسٹی کی پراگرس رپورٹ کا جائزہ لیا گیا ۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکٹر نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی پسماندگی دور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہاں تعلیم کو فروغ دیا جائے اور حکومت پسماندہ علاقوں میں 50 فیصد فنڈز شرح خواندگی کی بہتری کیلئے مختص کرکے تعلیمی ادارے قائم کیے جا ئیں ۔ 

قائمہ کمیٹی کوجوائنٹ سیکرٹری تعلیم ، چیئرمین ایچ ای سی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی نے کمیٹی کی سفارشات پرعملدرآمد اور ایجنڈے پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ریکرنگ گرانٹ کی مد میں سو فیصد بجٹ فراہم کیا گیا تھا جبکہ ڈویلپمنٹ گرانٹ2016-17 میں مکمل فنڈ فراہم نہیں کیا گیا معاملہ وزارت پلاننگ اور وزارت خزانہ سے اٹھایا ہے ۔

فنکشنل کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایچ ای سی کی سالانہ رپورٹ 2016-17 اگلے ماہ جاری ہو جائے گی جس پر چیئرمین کمیٹی نے سینیٹ اجلا س میں رپورٹ کا جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا ۔ 

فنکشنل کمیٹی کو بتایاگیا کہ کمیٹی کی ہدایت کے مطابق یونیورسٹی کے طلبہ کو لیب ٹاپ فراہم کرنے کے حوالے سے اے جے کے کے طلبا و طالبات کو 7843 ،بلوچستان1153 1، فاٹا 4200 ،جی بی1325 ،کے پی کے 16468 ، پنجاب19860 اور سندھ میں 32998 تقسیم کیے گئے جن میں سے 10288 پاکستان میں تیار ہونے والے لیب ٹاپ شامل ہیں ۔

کمیٹی کو بتایاگیا کہ مختلف ممالک میں وظائف پر تعلیم حاصل کرنے والوں بچوں کے لیونگ اخراجات بڑھائے جارہے ہیں ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے 6 ریجنل سینٹر قائم ہو چکے ہیں جہاں بچوں کو داخلے و دیگر معاملات میں سہولت کے ساتھ ساتھ آسانی پیدا کی گئی ہے ۔

وانا میں جلد ریجنل سینٹرقائم کیا جائے گا۔ فاٹا اور بلوچستان کے بچوں کو میٹرک تک تعلیم مفت دی جائے گی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں شرح خواندگی کی بہتری کیلئے70 کروڑ مختص کیے گئے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پسماندہ علاقوں میں معیار تعلیم اور امتحانات کے سسٹم کو بہتر کیا جائے اور پورے ملک میں یکساں معیارتعلیم قائم کیا جائے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایچ ای سی تمام یونیورسٹیوں سے وظائف کیلئے سسٹم اپنے پاس منتقل کر چکا ہے تاکہ بلاتمیز بچوں کو میرٹ پر وظائف فراہم کیے جائیں ۔ایم بی بی ایس کے 3900 ، بلوچستان اور فاٹا کے بچوں کو وظائف دیئے ہیں ۔

پہلے کوٹہ 40 اور60 فیصد تھا اب 50 فیصد کر دیا گیا ہے اورملک کی تمام یونیورسٹیوں سے فاٹا اور بلوچستان کے بچوں کیلئے تین سیٹیں مزیدمانگی ہیں ۔ کمیٹی کو بتایاگیا کہ بلوچستان کے22481 بچوں کو وظائف دیئے گئے ہیں جبکہ فاٹا کے 8391 بچوں کو وظائف ملے ہیں ۔ 

چیئرمین ایچ ای سی نے بتایا کہ ملک کی 20 یونیورسٹیوں میں چین کی زبان پڑھائی جا رہی ہے ۔ کراچی ، لاہور اور اسلا م آباد کی یوینورسٹیوں میں بھی چینی زبان پڑھانی شروع کر دی ہے تاکہ سی پیک کے حوالے سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ فنکشنل کمیٹی نے کوئٹہ ، گوادر ، مسلم باغ ، موسیٰ خیل ، خضدار و دیگر سی پیک کے ملحقہ پسماندہ علاقوں میں بھی چینی زبان کیلئے سینٹر کھولنے کی ہدایت کر دی ۔

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ بلوچستان میں تقرریوں اور وظائف کیلئے اسناد او رڈومیسائل متعلقہ اضلاع سے تصدیق کرائے جائیں ۔لوگ جعلی ڈومیسائل حاصل کر کے بلوچستان کے بچوں کی حق تلفی کرتے ہیں ۔طلبا یونین کی بحالی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایاگیا کہ مختلف یونیورسٹیوں میں کلب متعارف کرا رہے ہیں اور 38 سٹوڈنٹ سوسائٹیاں بن چکی ہیں ۔ 

سٹوڈنٹ سوسائیٹیوں پر زیادہ فوکس کیا جارہا ہے ۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان کاکٹر اور رکن کمیٹی حاصل خان بزنجونے کہا کہ سٹوڈنٹ یونین کی بحالی کے حوالے سے ایوان بالاء نے متفقہ طور پر واضح ہدایات جاری کیں ہیں جس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں ۔ سٹوڈنٹ یونین کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔

نگران وزیر تعلیم نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ سٹوڈنٹ یونین کیلئے پہلے پرامیٹرز مرتب کیے جائیں جس پر کمیٹی نے ایچ ای سی سے جامع رپورٹ طلب کر لی ۔ فنکشنل کمیٹی کو بتایاگیا کہ کلاس پنجم تک نیا نصاب بن چکا ہے اور اگلے سال ایف اے ، ایف ایس ای تک نیانصاب تیار ہو جائے گا۔ 

گزشتہ 12 سالوں سے نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملک میں ایسا تعلیمی نصاب مرتب کیا جائے جو جدید تقاضوں کے عین مطابق ہو اور متعلقہ ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ دوسالوں میں مختلف یونیورسٹیوں میں30 ہاسٹل تعمیر کر دیئے گئے ہیں اور کمیٹی کی ہدایت کے مطابق ہاسٹل میں غیر متعلقہ افراد کی رہائش کو سختی سے منع کرنے کے احکا مات جا ری کر دیئے ہیں۔ 

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایف سی و دیگر فورسز کے اہلکاروں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ یونیورسٹیوں میں صرف طلبا کو رہائش کی اجازت دی جائے ۔کمیٹی نے اس حوالے سے وزارت داخلہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں یونیورسٹیوں کے کیمپس بننے سے خواتین کی انرولمنٹ میں 18 فیصد بہتری آئی ہے ۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ جہاں یونیورسٹیاں قائم کی جارہی ہیں وہاں سکول بھی قائم کیے جائیں تاکہ ٹیچنگ سٹاف کے بچوں کو موثر تعلیم مل سکے۔

کمیٹی کو تبایاگیا کہ ملک میں 191 یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے 75 پرائیوٹ اور116 پبلک ہیں ۔پرائیوٹ یونیورسٹیوں میں کچھ اعلیٰ معیار کی ہیں کچھ عام ہیں ۔ بغیر اجازت کھولنے والی یونیورسٹیوں کو کنڑول کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ ایک ہزار کیسز عدالت میں ہیں ۔ 

کمیٹی نے پرائیوٹ سکولوں اور کالجوں کی طرف سے بھاری فیسیں وصول کرنے پر تشویش کا اظہار بھی کیا ۔ رکن کمیٹی سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ کے پی کے میں کچھ یونیورسٹیاں طلبا کو دس سال گزرنے کے باجود ڈگر ی فراہم نہیں کر رہی ۔کمیٹی کو مسلم باغ یونیورسٹی ،موسیٰ خیل لائیو سٹاک یونیورسٹی ، زیارت فاریٹ یونیورسٹی ، وڈاورژوب میں یونیورسٹی کی پراگرس بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا ۔ 

کمیٹی کو بتایاگیا کہ ایچ ای سی کے کل ریگولرملازمین کی تعداد651 ہے جبکہ 137 پراجیکٹ فنڈڈ پوسٹیں ہیں اور ادارے میں گزشتہ پانچ سالوں سے کوئی نئی تقرری نہیں کی گئی اگلے چند میں کوٹہ کے مطابق تقرریاں کی جائیں گی ۔ 

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ بلوچستان اور فاٹا کے کوٹہ کے مطابق جتنی بھی تقرریاں تاخیر کا شکار ہیں انہیں فوری پر کیا جائے اور امیدواروں کے ڈومیسائل متعلقہ اضلاع سے تصدیق کرائیں جائیں ۔ 

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر مولوی فیض محمد ، فدا محمد سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل ، حاصل خان بزنجو اور حاجی مومن خان آفریدی کے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری وزارت تعلیم محمد رفیق طاہر ، چیئرمین ایچ ای سی طارق بنوری ، ایگزیکٹو ڈائریکٹرایچ ای سی ڈاکٹر ارشاد علی، رجسٹرارعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔