2013ء کے عام انتخابات میں جب مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی تو اس دوران بھی سیاسی صورتحال یہی تھی سب کی نظریں مخلوط حکومت اور نئے وزیراعلیٰ پر لگی ہوئی تھیں کہ وزیراعلیٰ کون بنے گا اور مخلوط حکومت میں کون کون شامل ہوگا۔
بلوچستان سے جیتنے والی قوم پرست جماعتوں نے رائے ونڈ کا رخ کیا اور اس طرح مری معاہدے کے تحت نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اڑھائی سال کیلئے وزیراعلیٰ نامزد کیا گیاجس کے بعد باقی اڑھائی سال مسلم لیگ ن کے نواب ثناء اللہ خان زہری وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔
دیگر وزارتوں کا فیصلہ بھی رائے ونڈ میں کیا گیا جس کا اعتراف خود مسلم لیگ ن کے ماضی کے عہدیداروں نے کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہماری ناراضگی کی وجہ یہی ہے کہ بلوچستان کے اہم فیصلے صوبہ سے باہر کئے جارہے ہیں البتہ یہ ناراضگی حکومتی مدت کے آخری پانچ ماہ کے دوران کھل کرسامنے آئی۔
اندرونی کہانی سے سب ہی آگاہ تھے جب جان محمد جمالی اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہوئے اور سینیٹ انتخابات کے دوران شدید ناراضگی کا اظہار کیا ، ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے جبکہ مسلم لیگ ن کے دیگر وزراء اپنے عہدوں سے چمٹے رہے۔
جب مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو ایک ایک کرکے مسلم لیگ ن کے ارکان اس کا ساتھ چھوڑتے گئے اور اس طرح ن لیگ کا شیرازہ بلوچستان میں بکھرگیا، ماسوائے مسلم لیگ ن کے چند اراکین کے، دیگر سب نے عدم اعتماد کی تحریک میں مسلم لیگ ق کے عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کی اور اس طرح وہ تیسرے وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے۔
ناراض لیگی ارکان کا گلہ یہی تھا کہ بلوچستان کے فیصلے باہر سے آتے اور یہاں ان پر عملدرآمد ہوتا اس لئے ہم نے عدم اعتماد کی تحریک لائی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رائے ونڈ کے بعد اب بنی گالہ مرکز بنا ہواہے جہاں بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی ملاقات کیلئے جارہی ہیں اور وہیں پر ہمارے فیصلے ہورہے ہیں۔
گزشتہ روز بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں نے پی ٹی آئی کے قائدین سے ملاقات کی اور اس طرح پی ٹی آئی نے بلوچستان میں حکومت سازی سمیت وزیراعلیٰ کیلئے جام کمال کی حمایت کا اعلان کردیا۔مگراطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی بلوچستان اس فیصلے سے نالاں دکھائی دے رہی ہے جبکہ بی این پی مینگل بھی جام کمال کی حمایت نہیں کررہی جس کی وجہ سے بلوچستان میں حکومت سازی اور نئے وزیراعلیٰ کے نام پر اب تک اتفاق رائے سامنے نہیں آسکا۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر موجود سرکردہ رہنماء بھی اس وقت اپنی جماعت سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں ،فی الحال وہ کھل کر سامنے نہیں آرہے ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت جو سیاسی ماحول بنا ہے اس سے اب بھی لگتا ہے کہ بلوچستان سے جیتنے والی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتیں، اس لئے بنی گالہ میں بیٹھ کر ہی کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ مرکز کے ساتھ ہی بلوچستان حکومت چل سکتی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیشہ مرکز سے دور رہ کر بلوچستان میں حکومتیں زیادہ دیر تک نہیں چل سکی ہیں اس لئے مرکز میں حکومت بنانے والی جماعت کے ساتھ ہی یہاں کی جماعتیں حکومت سازی ، وزارت اعلیٰ سمیت وزراء کے نام پر مکمل اتفاق کرینگی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے فیصلے اب بھی صوبہ میں بیٹھ کر یہاں کی جماعتیں نہیں کرسکیں گی کیونکہ ان کے درمیان نہ صرف نظریاتی حوالے سے اختلافات موجود ہیں بلکہ مفادات کا ٹکر اؤ بھی ہے ۔
اس بات سے سب اتفاق کرینگے کہ اگر بنی گالہ نے بلوچستان کے معاملات یہاں کی سیاسی جماعتوں پر ہی چھوڑدیا تو یہ ایک اچھی روایت کی بنیادہوگی اورامید بھی یہی ہے کہ پی ٹی آئی قائدین بلوچستان کے معاملات پر یہاں سے جیتنے والی سیاسی جماعتوں کی رائے کواہمیت دے گی۔
بلوچستان کے فیصلے اب بھی باہرہورہے ہیں
وقتِ اشاعت : August 2 – 2018