|

وقتِ اشاعت :   August 4 – 2018

اسلام آباد میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ایوان میں جانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں کاکہناتھا کہ وہ ان انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں لیکن ایوان کے اندر اور باہر احتجاج جاری رکھیں گے۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء شیری رحمان کاکہناہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ایوان کے اندر انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لیں گی۔ سب سے پہلے توا سپیکر کا انتخاب ہوگا جس کا امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوگا جبکہ وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار مسلم لیگ ن سے ہوگا۔شیری رحمان کاکہناہے کہ ڈپٹی اسپیکر کا امیدوار متحدہ مجلس عمل سے ہوگا۔

آل پارٹیز کانفرنس میں تمام جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کی تحقیقات کے لیے ایک ایکشن کمیٹی بنائی ہے جس میں تمام جماعتوں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کمیٹی کے ارکان اس حوالے سے عنقریب چند ٹی آر اوز بھی واضح کریں گے۔پیپلزپارٹی نے موقف اختیار کیا ہے کہ ہم اس دھاندلی زدہ الیکشن کو نہیں مانتے اور اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔

عوامی نیشنل پارٹی کاکہنا ہے کہ ہم اپوزیشن کی حیثیت سے مقابلے میں نہیں جا رہے بلکہ جیت کے لیے جا رہے ہیں۔اے این پی کے افتخار کاکہنا ہے کہ ہم حکومت بنانے کے لیے جا رہے ہیں، اگر میدان لگا تو جو لوگ دباؤ میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف گئے ہیں وہ ہماری طرف بھی آ سکتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے اس کل جماعتی کانفرنس کے اختتام سے قبل کہا کہ اب ہم پاکستان تحریک انصاف کو بتائیں گے کہ اپوزیشن ہوتی کیسی ہے۔پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں 170 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

مرکز میں حکومت سازی کے لیے اراکین کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی کوششیں جاری ہیں۔مرکز میں حکومت بنانے اور حلف برداری کے حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے باقاعدہ اعلان کے بارے میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت سازی کے باقاعدہ آغاز کے لیے اب انہیں ‘الیکشن کمیشن کا انتظار ہے جس نے منتخب ہونے والے اراکین کو نوٹیفکیشن جاری کرنے ہیں۔

واضح رہے کہ 2013 کے عام انتخابات کے دس روز بعد الیکشن کمیشن نے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کے نوٹیفیکیشن جاری کر دئیے تھے۔تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اب بھی چند اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے۔ چھ مزید اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تحریک انصاف کے رہنما نومنتخب اراکین اسمبلی اور سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ ق، عوامی مسلم لیگ، ایم کیو ایم پاکستان، جی ڈی اے،باپ اور جمہوری وطن پارٹی کی حمایت حاصل ہے جبکہ اب تک سات آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف باآسانی مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن پارلیمان میں اسے ایک سخت حزب مخالف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک نکتہ ان جماعتوں کو متحد رکھے گا۔ان کے خیال میں حزب مخالف کا یہ اتحاد پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔

مبصرین کاکہنا ہے کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ مینڈیٹ کے خلاف جاتے ہوئے اگر پی ٹی آئی کو حکومت کا موقع نہ دیا گیا تو عوام میں ان کے لیے ہمدردی بڑھے گی جس کا نقصان ان سمیت مسلم لیگ ن اور دیگر مخالف جماعتوں کو ہوگا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے متحدہ اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات زیادہ نہیں کیونکہ پی ٹی آئی اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ماضی کی نسبت اس بار ایک مضبوط اپوزیشن ایوان میں نظرآئے گی اگر اپوزیشن کا یہ اتحاد وقتی ثابت نہ ہو کیونکہ ماضی میں بھی اس طرح کی اتحاد زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوئی ہیں ۔

مگر ملک میں جمہوریت کیلئے یہ ایک نیک شگون ہے کہ جمہوریت اپنے ٹریک پر چل رہی ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی پارلیمان میں آکر مقابلہ کرنے کافیصلہ کیا ہے جس کے آگے چل کر مثبت نتائج برآمد ہونگے۔