|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2018

عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں سب سے زیادہ 15نشستیں لینے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے حکومت سازی کیلئے رابطہ مہم کا آغاز کیا تو چار آزاد امیدوارو،اے این پی کے تین،بی این پی عوامی کے دو جبکہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو ارکان کی حمایت حاصل کی ۔

ایچ ڈی پی کے ایک رکن علی احمدکہزاد غیرملکی شہری نکلے، اس کا جو فیصلہ ہوگا وہ تو بعد کی بات ہے البتہ اس جماعت کے فی الحال اکلوتے رکن کی حمایت انہیں حاصل ہے ۔ باپ کے قائدین نے اسلام آباد میں بنی گالہ جاکر عمران خان سے ملاقات کی جس پر باپ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بنی گالہ میں یہ طے ہوا تھا کہ ہم مرکز میں پی ٹی آئی جبکہ صوبہ میں وہ ہماری حمایت کرینگے ۔

اس طرح بلوچستان میں پی ٹی آئی کے چار ارکان کی حمایت باپ کو حاصل ہوگئی۔ مجموعی طور پر اب تک 29 ارکان کی حمایت حاصل ہونے کے بعد’’ باپ‘‘ حکومت بنانے کی بہترین پوزیشن میں ہے ۔ 

بلوچستان عوامی پارٹی نے گزشتہ روز پارلیمانی اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران جام کمال خان کو پارلیمانی لیڈر جبکہ میرعبدالقدوس بزنجو کو اسپیکر کیلئے نامزد کردیا ۔ 

اس سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی میں وزارت اور دیگر عہدوں کیلئے پارٹی کے اندر معاملات طے نہیں پارہے تھے گوکہ باپ نے اس کی تردید کی ہے ۔

مگر اسلام آباد میں جب جہانگیر ترین نے جام کمال خان کوو زیر اعلیٰ بنانے کی بات کی تو اس کے فوری بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے ہی سرکردہ رہنماؤں نے میڈیا میں آکر اس کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات میں صرف ایک دوسرے کی حمایت ودیگر معاملات پر بات چیت ہوئی تھی، وزارت اعلیٰ پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی یہ معاملہ زیر بحث لایا گیا تھا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی اس وقت حکومت بنانے کی بہترین پوزیشن میں ہے 29 ارکان کی اسے حمایت حاصل ہے ساتھ ہی اقلیتی وخواتین ارکان کے بعد باپ سادہ اکثریت لینے میں کامیاب ہوجائے گی جوکہ 33 بنتی ہے مگر جس طرح سے گزشتہ چند روز کے دوران پارٹی میں عہدوں کیلئے اختلافات سامنے آئے ہیں ۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اندرون خانہ اختلافات موجود تھے، اس لئے بلوچستان عوامی پارٹی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہی تھی ۔سیاسی حلقوں میں یہ بات واضح تھی کہ باپ کی جانب سے وزارت اعلیٰ کیلئے مضبوط امیدوار جام کمال ہی ہیں ۔

اختلافات وزارت اعلیٰ کے عہدے پر نہیں بلکہ دیگر وزارتوں اور عہدوں پر تھا جس کی وجہ سے بلوچستان عوامی پارٹی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر تھی اور جہاں اعلانات سامنے آتے تو فوری طور پر اس کی تردید پارٹی کے کسی رکن کی صورت میں آجاتی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے باپ میں اختلافات سامنے آئے ہیں وہ آگے چل کرمزید شدت بھی اختیار کرسکتے ہیں کیونکہ معاملات تو وقتی طور پر حل ہوگئے ہیں ۔

البتہ آگے چل کر باپ کو پارٹی کے اندر موجود اراکین کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کیلئے ہر فیصلے پر انہیں آن بارڈ لینا ہوگا اور ساتھ ہی اتحادی جماعتوں کی مشاورت کے ساتھ چلنا پڑے گا نہیں تو آگے چل کر پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی جو اس صوبے کی سیاسی تاریخ کا ایک باب رہا ہے۔ 

اب یہ بلوچستان عوامی پارٹی کے قائدین پر منحصر ہے کہ وہ آگے چل کر معاملات کو کس طرح افہام وتفہیم اور مشاورت کے ساتھ چلائینگے تاکہ حکومت بننے کے بعد کوئی بڑا مسئلہ سامنے نہ آئے۔ 

امید ہے کہ اس بار ایسے عمل کو نہیں دہرایا جائے گا جس سے بلوچستان کی ملک کے دیگر حصوں میں جگ ہنسائی ہو بلکہ حکومت کی مکمل توجہ بلوچستان کی ترقی اور یہاں کے عوام کی خوشحالی پر ہونی چائیے۔