نڈر،بیباک ،دوٹوک مؤقف رکھنے والے، کسی بھی مصلحت پسندی سے بالاترشخصیت لالہ صدیق بلوچ سے کون واقف نہیں۔ان کی ذات گرامی، ہر دلعزیز شخصیت اور اپنے کام سے لگن کی بنیاد پر ان کے نام سے ملک کے سیاسی،صحافتی اور دیگرمکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بخوبی آگاہ ہیں۔
بعض شخصیات صدیق بلوچ کو مزاحمتی قلم کار بھی لکھتے ہیں جس کی خاص وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لا یا اور بلوچستان کے حقیقی مسائل اور بیانیہ کو اپنے قلم کے ذریعے ملک کے کونے کونے تک پہنچایا۔بلوچستان کی سرزمین سے لالہ صدیق بلوچ کانظریاتی لگاؤ تھا انہوں نے سیاست بھی بلوچستان کیلئے کی اورمشکلیں بھی کی اسی کے لیے سہیں۔
ان کے قریبی ساتھیوں میں میرغوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔ لالہ صدیق بلوچ کی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے مگر وہ کسی بھی مقام پر کمزور دکھائی نہیں دیئے بلکہ ڈٹ کر کٹھن حالات کامقابلہ کیااور یہ سب کچھ انہوں نے صرف بلوچستان کے مظلوم عوام کیلئے کیا۔
بلوچستان کو موضوع بناتے ہوئے صحافتی زندگی میں سینکڑوں مشکلیں لالہ صدیق بلوچ کو جھیلنا پڑیں لیکن اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی اور انہیں خوبیوں نے ان کو بلوچستان بھر میں مقبول اور ہر دلعزیز شخصیت کے مرتبے پر فائز کردیا۔لالہ صدیق بلوچ کے قلمی جدوجہد کا مقصد صرف یہی رہا ہے کہ بلوچستان کو اس کا اصل مقام دیاجائے جو 70 سال گزرنے کے بعد بھی نہیں ملا۔
مرکز اور صوبے میں بننے والی حکومتوں نے بلوچستان میں اپنے دعوؤں کے مطابق دودھ اور شہد کی نہریں بہادیں لیکن برسرزمین بلوچستان کی پسماندگی آج بھی ایسی آن بان سے قائم ہے کہ جیسے یہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔
المیہ یہ ہے کہ وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں کام کرنے کی بجائے سارا زور پروپیگنڈا پر دیتے آئے ہیں اور دیگر صوبوں کی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ بلوچستان میں بے پنا ہ ترقی ہورہی ہے ،تو لالہ صدیق بلوچ نے اپنے قلم کے ذریعے ایسی تمام گمراہ کن پروپیگنڈا کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیتے ،ان کے تمام تر دعوؤں اور منفی پروپیگنڈا کا خلاصہ کرتے اور پورے ملک کے سامنے ان کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیتے، اس سے ان وزیروں اور کرپٹ افسر شاہی کو زیادہ پریشانی ہوتی جو بلوچستان کے وسائل کو مال مفت دلِ بے رحم کی طرح لوٹ رہے ہوتے ۔
قلم کی اس جنگ میں ایک طر ف وہ خود اور دوسری جانب کرپٹ عناصر تھے، کرپٹ عناصر کا واحد ہتھیار صرف ایک ہی رہا اور وہ تھاان کے اخبارات کے اشتہارات کی بندش۔ کیونکہ وہ لالہ صدیق بلوچ کو خرید تو نہیں سکتے تھے اور نہ ہی ان پر کوئی دھونس جما سکتے تھے ، اوروہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ جوکچھ لالہ کا قلم لکھ رہا ہے اس کے جذبات اور افکار بلوچستان کیلئے عملی طورپر بھی وہی ہیں۔
کرپٹ عناصراپنے تمام منفی حربے آزماتے اور ان کے ادارے کونقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے، اس جنگ میں ان کے قریبی دوست بھی دشمن بن گئے جن میں چند ان کے اپنے شاگردبھی تھے مگر لالہ نے بلوچستان کے حوالے سے کوئی رعایت نہیں برتی کیونکہ ان کامقصد بلوچستان کے مظلوموں کوان کا حق دلانا تھا۔
بلوچستان کے حقیقی قبائلی معاشرے کو مسخ کرنے اور اپنی کرپشن چھپانے کیلئے ہر وقت یہی پروپیگنڈہ کیاجاتا رہا کہ فرسودہ نظام، تعلیم وترقی دشمن بلوچستان کاقبائلی معاشرہ اور شخصیات ہیں مگر بلوچستان کے قبائلی معاشرے کے تمام حقیقی پہلوؤں سمیت ترقی کے نام پر لوٹ کھسوٹ کو لالہ صدیق بلوچ نے اپنے قلم کے ذریعے نہ صرف اجاگر کیابلکہ ہر سطح پر اس کا دفاع بھی کیا ۔
بلوچستان کے سیاسی حالات، شخصیات، وسائل اور مسائل پرانہوں نے کتابیں بھی لکھیں جن میں سے چند طباعت کے آخری مراحل میں ہیں ۔ یہ کتابیں حقیقی معلومات پر مبنی ہیں جن کے پڑھنے سے بلوچستان کی پسماندگی کے اصل ذمہ داروں اور یہاں سیاسی عدم استحکام سمیت ترقی دشمنوں کے چہرے سامنے آئینگے ، یہ کتابیں ان کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔
لالہ صدیق بلوچ جن سیاسی وقبائلی شخصیات کے عمل کو صحیح سمجھتے تو ان کے حق میں کھل کر لکھتے اورجو عناصر بلوچستان دشمنی پر عمل پیراہوتے انہیں قلم کی وار سے نشانہ بناتے ۔
آج لالہ صدیق بلوچ کی 79 سالگرہ ہے، یہ خوشی اپنی جگہ لیکن ان کی جدائی کا غم بھلائے نہیں بھولتا۔ ایسے عظیم انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کامقصدو محور اپنے دھرتی کے مظلوم عوام کی بہتری ہوتی ہے۔
لالہ صدیق بلوچ کی 79ویں سالگرہ
وقتِ اشاعت : August 10 – 2018