|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2018

میر غوث بزنجو کو وفات پائے تقریباً 21 سال ہونے کو ہیں مگر ان کی یادیں ابھی بھی تازہ ہیں سیاست پر ان کی چھاپ آج بھی واضح ہے۔ ریاست قلات کی سیاست کے بعد وہ بلوچستان میں جدید سیاست کے بانی ہیں۔ 

قیام پاکستان سے قبل وہ سامراج دشمن تحریک میں پیش پیش تھے وہ واحد شخص تھے جس نے غیر منقسم ہندوستان کی جیلوں میں سزائیں کاٹیں۔سامراج دشمنی میں وہ یکتا تھے ، ہمارے اس خطے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا، ان کے خیالات ترقی پسندانہ تھے او روہ بلوچ قومی تحریک کے روح رواں تھے اس لیے پوری زندگی انہوں نے جیل میں گزاری یا گھر پر نظر بندی میں جس میں جنرل ضیاء دورِ حکومت کے دس سال بھی شامل ہیں۔ 

جنرل ضیاء الحق اور ان کی انتظامیہ جتنا ان سے نفرت کرتی تھی اتنی ہی ان کی رائے کو اہمیت بھی دیتی تھی۔جب روسی افواج افغانستان پر قابض ہوگئیں تو ضیاء الحق اور ان کے جنرل اسٹاف نے بزنجو مرحوم کو مشاورت کے لئے طلب کیا وہ پہلے شہری تھے جس کو صدر پاکستان نے سیکورٹی کے معاملات میں مشاورت کیلئے طلب کیا تھا۔انہوں نے واضح طورپر جنرل ضیا ء الحق کو بتادیا کہ اگر وہ افغان رجعت پسند عناصر کو اسلحہ دیں گے اور ان کو تربیت دیں گے تو بعد میں یہی افغان مجاہدین اپنی بندوقوں کا رخ اسلام آباد کی طرف کریں گے۔

روس سے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ افغانستان سے جلد واپس چلا جائے گا ان کا اندازہ صحیح نکلا۔جب مقتدرہ نے یہ فیصلہ کیا کہ جلال آباد میں افغانستان کی متوازی حکومت قائم کی جائے گی تو اسی زمانے میں 1988ء کے انتخابات ہورہے تھے ،میرغوث بخش بزنجو مکران اور جھالاوان سے قومی اسمبلی کے امید وار تھے۔ مقتدرہ کا یہ فیصلہ تھا کہ بزنجو اور ولی خان کو قومی اسمبلی سے باہر رکھا جائے تاکہ جلال آباد میں افغانستان کی متوازی حکومت قائم ہو۔

اس لیے بزنجو اور ولی خان کی قومی اسمبلی کے انتخابات میں شکست لازمی تھی اس لیے بی ایس او ‘ بی این ایم ( متحدہ ) اور اپنے وقت کے ترقی پسند طالب علم اور نوجوان رہنماؤں نے مقتدرہ کے ایجنڈے پر کام کیا اور بزنجو صاحب کو شکست سے دو چار کیا۔

آج کل بعض لوگ خصوصاً مکران سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماء اس حقیقت پر پردہ ڈالتے ہیں کہ انہوں نے گھر گھر جا کر چندہ اکٹھا کیا اور ووٹ مانگے تاکہ بزنجو صاحب کو مقتدرہ کی ایماء پر شکست دی جائے،ان واقعات کے ہزاروں عینی گواہان موجود ہیں۔

میرغوث بخش بزنجو اور ان کی سیاست مقتدرہ مخالف تھی اس لیے زندگی کا بیشتر حصہ قید و بند میں گزارا۔ سیاسی طورپر وہ بلوچستان کی سب سے بڑی قدر آور شخصیت تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے دورے کے دوران مرحوم بھٹو کو بعض مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے مرحوم بزنجو کو جو اس وقت بلوچستان کے گورنر تھے ، مدد کے لئے بلایا۔

میرغوث بخش بزنجو جب مہر آباد اےئر پورٹ پر اترے تو شہنشاہ ایران ان کے استقبال کے لئے خود موجود تھے ،یہ دیکھ کربھٹو اور ان کے خارجہ پالیسی کے خالق ششدر رہ گئے۔بزنجو کی سفارش پر شاہ ایران نے پاکستان کو تیس کروڑ ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا، اس سے قبل حکومت ایران نے امداد دینے سے انکار کیا تھا صرف بزنجو کی سفارش پر ریاست پاکستان کو تیس کروڑ ڈالر کی امداد ملی۔ 

اس کے بدلے بلوچ جنگجوؤں سے بزنجو نے مذاکرات کیے، ایران اور بلوچ جنگجوؤں کے درمیان معاہدہ امن آج تک قائم ہے۔شاہ ایران نے گوادر بندر گاہ کی تعمیر کے لئے مالی امداد کا وعدہ کیا،خضدار میں انجینئرنگ کالج ‘ کوئٹہ اور اوتھل میں دو بڑے کارخانے لگائے جو پچاس ہزار اسپنڈلز پر مشتمل تھے۔ 

بعد ازاں جب بھٹو نے گورنر اور صوبائی حکومت کو بر طرف کیا تو اس کی مزاحمت ہوئی۔اس دوران شاہ ایران نے دھمکی دی کہ وہ بلوچستان پر قبضہ کرے گا اس کے جواب میں بزنجو صاحب نے کہا کہ بلوچستان کی سرحد پر وہ پہلے شخص ہوں گے جو شاہ اور اس کی فوج کی مزاحمت کریں گے۔جہاں تک بلوچستان کو صوبائی درجہ دینے کی بات ہے اس کے سپہ سالار بزنجو تھے انہوں نے اس جنگ کی سربراہی کی اور اپنی کوششوں سے پورے بلوچستان کو متحد کردیا۔

ان کی ٹیم میں سردار عطاء اللہ مینگل ‘ نواب خیر بخش مری ‘ نواب بگٹی‘ گل خان نصیر کے علاوہ دوسرے اکابرین شامل تھے۔ میرغوث بخش بزنجو ایک عوامی لیڈر تھے جس طرح بلوچستان میں اسے پذیرائی ملی بالکل اسی طرح کراچی کے بلوچ علاقوں میں میر غوث بخش بزنجو کے ماننے والوں کی بڑی تعداد آج بھی موجود ہے ۔

انہوں نے کبھی بھی لسانیت کو ہوا نہیں دی بلکہ مظلوم اقوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کی آج ملک بھر میں اس کے نظریہ سیاست کو مانا جاتا ہے۔ میرغوث بخش بزنجو عدم تشدد کی سیاست کے قائل تھے اور ہمیشہ ان کا کہنا تھا کہ تشدد سے تباہ کاری ہی ہوسکتی ہے اس لئے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے عوامی طاقت اور شعوری بنیاد پر اقتدار میں آکر اپنا حق حاصل کیا جاسکتا ہے وگرنہ تشدد صرف تباہی لاتا ہے۔ 

میر غوث بخش بزنجو کو بابائے بلوچستان اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کی سیاست انا پرستی پر مبنی نہیں تھی ۔ وہ ساری زندگی مستقبل مزاجی کے ساتھ اپنے نظریہ پر کار بند ہوکر سیاست کرتے رہے ۔ 

میرغوث بخش بزنجو کا شمار برصغیر کے ان ہیروز میں ہوتا ہے جنہوں نے سامراجی قوتوں کے خلاف ہر وقت آواز بلند کی ، بدلے میں اذیتیں جھیلیں اور جیل بھی گئے مگر اپنے افکار و نظریات سے پیچھے نہیں ہٹے۔ میرغوث بخش بزنجو ہمارے درمیان تو موجود نہیں مگر آج بھی ان کے نظریات وافکار کو ماننے والے موجود ہیں یہی ایک عوامی اور کامیاب لیڈر کا اثاثہ وسرمایہ ہوتا ہے۔