|

وقتِ اشاعت :   August 15 – 2018

گزشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے سنجدی میں کوئلے کی ایک کان میں پھنسے 13 کان کنوں میں سے آٹھ کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ امدادی کام جاری ہے تاہم مزدور تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ریسکیو میں تاخیر کے باعث کان میں پھنسے ہوئے نہ صرف تمام کان کن جاں بحق ہوچکے ہیں بلکہ ان کو بچانے کے لیے جانے والے پانچ دیگر کان کن بھی جان سے ہاتھ دوبیٹھے ہیں ۔

چیف انسپکٹر مائنز افتخار احمدکاکہناہے کہ اس کان میں 13کان کن اس وقت پھنس گئے جب کان میں گیس بھرنے کے باعث زوردار دھماکہ ہوا۔ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالہ سلطان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے کان کنوں کی تعداد 18ہوگئی ہے۔

تاہم چیف انسپکٹرمائنز نے اس کی تصدیق نہیں کی۔جاں بحق ہونے والے کان کنوں کا تعلق سوات اور دیر سے بتایا جاتا ہے۔کوئلے کی زیادہ تر کانیں کوئٹہ، کچھی، ہرنائی اور لورالائی کے اضلاع میں ہیں بلوچستان میں دیگر صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔

بلوچستان میں کوئلہ کی کانوں میں حادثات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں سال مئی کے مہینے میں کوئٹہ شہر کے قریبی علاقے سورینج میں دو کانوں میں پیش آنے والے واقعات میں 23 کان کن جاں بحق ہوئے جس کے خلاف مزدور یونین کے رہنماؤں نے احتجاج کیا، ان کا کہنا تھا کہ مئی سے اب تک ایسے واقعات میں 74سے زائد کان کن جاں بحق ہوئے ہیں۔

انہوں نے بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں حادثات پیش آنے کی ایک وجہ حفاظتی انتظامات کے فقدان کو قرار دیا۔مزدور رہنما کا کہنا تھا کہ حفاظتی انتظامات کو یقینی نہ بنانے کی ایک بڑی وجہ ٹھیکیداری نظام ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے بجائے ٹھیکیداروں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کوئلہ نکالیں۔ کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانا انسپیکٹوریٹ آف مائنز کی ذمہ داری ہے لیکن یہ ادارہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔

مزدور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار اپنے آپ کو سیفٹی یا مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ان کا دعویٰ ہے کہ 2010 سے لیکر اب تک بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے واقعات میں 200 سے زائد کان کن جاں بحق ہوئے ہیں۔

محکمہ معدنیات بھی سیفٹی اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہی ۔ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو اس کا ازخود نوٹس لینا چائیے تاکہ حادثات کے ذمہ دار افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

بلوچستان میں اس وقت اہم صنعت کان کنی ہے بدقسمتی سے مزدوروں کیلئے کوئی سیفٹی انتظامات نہیں ہیں جبکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی ، مزدورآئے دن کام کے دوران موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ ٹھیکیدار کان کے مالکان منافع کمانے میں مصروف ہیں۔


یہ حکومت اور متعلقہ محکمہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کان کنی کے حوالے سے حفاظتی انتظامات سے متعلق عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ حادثات رونما ہونے کی شرح کو بالکل ختم کیا جاسکے یا پھر اس کو سو میں سے صرف ایک فیصدپر لایا جاسکے۔

انسانی جانوں سے متعلق لاپرواہی اور بے حسی انتہائی قابل مذمت عمل ہیں خواہ یہ کسی کی بھی طرف سے ہو۔ ہم اس دین کے ماننے والے ہیں جہاں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل اور ایک انسانی زندگی کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قراردیاگیا ہے۔

تو کیا ہم بحیثیت حکومت، بحیثیت محکمہ یا بحیثیت آجران کان کنوں کی زندگیوں کو بچا نے کے حوالے سے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔مزدور تو مجبور ہے، وہ ان موت کے اندھے کنوؤں میں روزی روٹی کی شکل میں زندگی تلاش کرتا ہے، اور حاکمان شہر اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس کو واقعی اس کے لیے موت کے اندھے کنووں میں بدل دیتا ہے۔

کوئی ہے جو اپنے آپ کو ان اموات کا ذمہ دار سمجھے ، کوئی ہے جو ان موت کے اندھے کنووں کو زندگی کا نعم البدل بنادے تاکہ ان مزدوروں کے بچے اپنے والد کے زیر سایہ زندگی کی کٹھن راہوں کو اپنے لیے آسان بناسکیں۔امید ہے کوئی نہ کوئی آئندہ کے لیے غافل نہیں رہے گا اور اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرکے موت کی بجائے زندگی بانٹے گا۔