گزشتہ روز نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علاؤ الدین مری نے بلوچستان یونین آف جرنلسٹ اور کوئٹہ پریس کلب کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ بلوچستان کے صحافیوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ہمیں تمام شہداء کو ایک آنکھ سے دیکھنا چاہئے ، بلوچستان کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے یہاں کے صحافیوں نے جان کی پرواہ کئے بغیر جام شہادت نوش کی جنہیں کبھی نہیں بھلایاجاسکتا۔
علاؤالدین مری کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کی بھاگ ڈور جب سنبھالی تو مجھے اندازہ ہوا کہ مسائل حل کرنے میں کس طرح سے رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں اور حد تو یہ ہے کہ چند بیوروکریٹس اپنے مفادات کی خاطر یہاں کے مسائل کو حل کرنے میں رخنہ ڈالتے ہیں۔
نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علاؤ الدین مری نے تقریب کے دوران اپنے حکومتی مدت میں جومعاملات دیکھے ،انہیں بیان کیا۔ بلوچستان کا المیہ یہی ہے کہ جو بھی حکومت بنتی ہے اس کو کسی نہ کسی طرح سے مفلوج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسی طرح سے پرنٹ میڈیا کو زیرعتاب لانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ وہ سچ اور حق کی آواز نہ اٹھائے، جہاں کرپشن ہورہی ہے ۔
اس کی نشاندہی نہ کرے اور چپ کاروزہ رکھے جس کااظہار گزشتہ روز صحافتی تنظیموں کے رہنماؤں نے برملا کیا۔ بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہے لیکن بد قسمتی سے یہ پورا نصف حصہ ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہے حالانکہ یہاں بے پناہ وسائل ہیں لیکن مرکزی حکومتوں نے بھرپورطریقے سے ان وسائل کو ہڑپ کرلیا اور بلوچستان کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا۔
بلوچستان کی سوئی گیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس کا فائدہ اس زمین کے باسی حاصل کرنے سے محروم رکھے گئے ۔ سیندھک دوسری بڑی مثال ہے جس کو اسلام آباد اور چین نے مل کر لوٹا اور اب ان کی للچائی ہوئی نظریں ریکوڈک پر لگی ہوئیں ہیں کہ کس طرح اس کو بھی لوٹ لیا جائے ۔
دلچسپ بات ہے کہ اسلام آباد خسارے کے وقت بلوچستان کو بھول جاتا ہے اور منافع کے وقت بھی بلوچستان کو بھول جاتا ہے یعنی منافع سارا خود کھا لیتا ہے اور خسارہ سارا بلوچستان کو بھرنے کو کہتا ہے ۔ریکوڈک کیس کی مثال ہمارے سامنے ہے جب اس کیس میں پینلٹی لگ گئی تو مرکز نے اپنے ہاتھ اٹھالیے اور سارا خسارہ بلوچستان حکومت پر ڈال دیا ،اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس عمل پر شدید برہمی کا اظہار بھی کیا۔
بلوچستان میں اس وقت جتنے بھی میگا منصوبے چل رہے ہیں اس سے بلوچستان کو کچھ بھی نہیں مل رہا اور یہی گلہ ہمیشہ سے یہاں کے سیاستدانوں اور عوام کو رہا ہے۔ اورمرکز کے انہی رویوں کے باعث بلوچستان اور مرکز کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے ،اب تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات نے بھی مرکزی جماعتوں سے اپنا تعلق ختم کردیا ہے جو عرصہ دراز سے ان کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ اس بار پی ٹی آئی مرکز میں حکومت بنانے جارہی ہے جو کہ ایک نیا تجربہ ہوگا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی بلوچستان کو کس حد تک اہمیت دے گا، نیا پاکستان بنانے کے ساتھ ایک خوشحال بلوچستان کیلئے اس کی ترجیحات کیا ہونگی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی بننے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہئے کہ سب سے پہلے بلوچستان میں موجود مسائل کے ساتھ ان آفیسران پر ہاتھ ڈالاجائے جو بلوچستان کی ترقی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے آئے ہیں، یہ بہت ضروری ہے ۔
کیونکہ جب تک کرپٹ آفیسران موجود رہینگے تو کوئی بھی منصوبہ بلوچستان کیلئے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ 18ویں ترمیم میں جو حق صوبوں کو دیا گیا ہے اس کا پورا اختیار بلوچستان کو دیا جائے تاکہ بلوچستان کے اپنے منتخب نمائندگان پالیسیاں مرتب کرتے ہوئے فیصلہ سازی کے عمل میں مرکز کے ساتھ شریک رہیں اور ان کی رائے اور تجاویز کو اہمیت دی جائے تاکہ موجود مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں جاری ۔
میگا منصوبوں کا پورا فائدہ اس غریب صوبہ کو مل سکے اور سی پیک جیسے اہم منصوبے کے فیصلوں اور معاہدوں میں حکومت بلوچستان کو مکمل اعتماد میں لیاجائے ۔ امید ہے کہ مرکز میں نئی بننے والی پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان نے بلوچستان کے حوالے سے جو وعدے کئے ہیں انہیں پورا کرینگے تاکہ بلوچستان بھی دیگر صوبوں کی طرح ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکے۔
بلوچستان کے مسائل ، رکاوٹ کون؟
وقتِ اشاعت : August 16 – 2018