کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر رکن قومی اسمبلی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ گزشتہ70 سالوں کے دوران حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان اپنے حقوق سے محروم رہا ہے ۔
بلوچستان کے مسئلے کا حل بندوق اور توپ نہیں ہمارے 6 نکات پر عملدرآمد ہونا چا ہئے ہم ایک سال تک انتظار کرینگے کہ اس پر پیشرفت ہو تی یا نہیں یہ نکات حب الوطنی پر مبنی ہے ہم نے پاکستان کے آئین کے تحت انتخابات میں حصہ لے کر صوبائی اور قومی اسمبلی تک پہنچے ہیں تاکہ فیڈریشن کو مضبوط کیا جا سکے ۔
اس لئے بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے برابر سیٹیں دے کر فیڈریشن میں مضبوط حیثیت دی جا سکتی ہے ماضی میں بھی لو گوں کو الیکٹ کی بجائے سلیکٹ کیا جا تا رہا ہے ان انتخابات میں پارٹی کا مینڈیٹ چرایا گیا جس کی وجہ تمام جماعتیں واویلا مچا رہی ہے ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران کیا انہوں نے کہا ہے کہ1970 سے لے کر اب تک ہونیوالے انتخابات صاف وشفاف نہیں رہے 25 جولائی کو ہونیوالے انتخابات کویونیک انتخابات کہا جا سکتا ہے کیونکہ ہارنے والے اور جتنے والے کو پتہ نہیں کہ وہ کیوں ہارا اور دوسرا کیوں جیتا ہے انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں نتائج مختلف ہے ۔
دوسری جماعتوں کی طرح ہمارا بھی مینڈیٹ چرایا گیا ہے کیونکہ ہماری نظر میں ہمارے نتائج تبدیل کئے گئے ہیں اس وقت مرکز میں ہماری تین جنرل سیٹیں آئی ہے اگر مینڈیٹ چرایا نہ جاتا تو جنرل 7 سیٹیں ہو تی اور اسی طرح صوبے میں سات سیٹیں آئی ہے اور یہ 13 سے14 ہو تی ہے ۔
انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں حلقے تین اضلاع پر مشتمل ہے اور یہ رقبہ65 ہزار مربع کلو میٹر بنتا ہے قومی اسمبلی میں بلوچستان کی تقریبا16 نشستیں مخصوص نشستیں ملا کر 20 بنتی ہے اس کے باوجود ہمیں ایک اقلیت کی نشست نہیں ملتی کیونکہ اس کے لئے 25 سے27 ووٹوں کا فارمولہ مقرر ہے اس حق سے بھی ہمیں محروم رکھا گیا ہے ہر ورق کو پلٹیں تو ہماری داستان غم نظر آئے گی بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی نشستوں میں اضافہ کر کے پاکستان کے دیگر صوبوں کے برابر لایا جا سکتا ہے ۔
گزشتہ70 سال سے غلط پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان کو اس کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ہمارے ساحل ووسائل پر حق واختیار کو تسلیم کیا جائے اسی طرح سیندک سے نکلنے والے خام میٹرل کو ریفانڈ کرنے کے لئے یہاں پر ریفانری لگائی جاتی لیکن نہیں لگائی گئی ۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہم بھی محب وطن ہے عوام کے حقوق کی بات کرنے پر غداری کا لقب دیا جات اہے 1988 سے2018 تک صوبائی اسمبلی میں پہنچا ہوں اور آئین کی تحت حلف اٹھایا ہے ہمارے پاس پاکستان شناختی کارڈ ہے اس کے باوجود ہمیں ریاست مخالف اور اینٹی اسٹیٹ سمجھا جاتا ہے اور حب الوطنی اور انٹی اسٹیٹ کی سر ٹیفکیٹ دینی والی فیکٹریاں عام ہے ۔
میں وزیراعلیٰ بلوچستان اپوزیشن لیڈر رکن صوبائی اسمبلی اور اب قومی اسمبلی کا رکن بھی منتخب ہوا ہے اور اسی آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہمارے6 نکات حب الوطنی مبنی ہے ان پر عملدرآمد کیا جس میں مسنگ پرسنز کی بازیابی ، زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر کرنے کے لئے ٹیمز کی تعمیر وفاقی ملازمتوں میں چھ فیصد کوٹہ پر عملدرآمد جو کہ28 ہزار ملازمتوں پر مشتمل ہے ۔
افغان مہا جرین کی باعزت وطن واپسی اور سی پیک کے حوالے سے بچوں کے لو گوں کی حق ملکیت کو تسلیم کرنا ہے سمیت دیگر پر مشتمل ہے ہم نے ماضی کو سامنے رکھتے ہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لئے مشکل فیصلہ کیا ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی پشتون افغان مہا جرین کو آئی ڈی کارڈ کو مقامی بنا تا ہے تو اس کا نقصان پشتونوں کو ہو گا نفرتیں ختم کر نے کی ضرورت ہے بندوق اور توپ سے بلوچستان کے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا پی ٹی آئی نے ہمارے چھ نکات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے ہم ایک سال تک اس پر عملدرآمد مختلف کمیٹیوں ، مسنگ پرسنز کی بازیابی کے حوالے سے دیکھیں گے کوئی قانون سازی کی جائے ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ سول اور عسکری قوتوں کے اختیارات کا تعین کیا جائے اور ہر کوئی اپنے دائرہ اختیار میں رہے گا تو نظام ٹھیک چلے گا ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے سکول، مساجد، امام بار گا ہیں۔
ہسپتال سمیت کچھ بھی محفوظ نہیں اپنی پالیسیوں کو درست کرنا ہو گا سی پیک جو کہ بلوچستان کی مرحون منت ہے بلوچستان میں کچھ نظر نہیں آرہا دو ماہ سے بجلی اور پانی نہیں سی پیک کیسے تقدیر بدلے گا بجلی بھی ایران دے رہے ہیں وہاں پر ایرانی پیٹرول سستا اور پانی مہنگا ہے ۔
سی پیک پر ہمارا حق ہے وہ ہمیں نہیں مل رہا آج گوادر کی آبادی بمشکل دو لاکھ ہے اگر وہاں پر یہ لوگ آئے تو مقامی لوگ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے ان کو گوادرکے شہری کی جو زمین ہو گی اس کا حصہ دار ہونا چا ہئے جو با ہر کے ممالک ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کا حل بندوق نہیں ہماری 6نکات میں موجود ہے ، اختر مینگل
وقتِ اشاعت : August 17 – 2018