نواب اکبر بگٹی اپنے عہد کا ایک نمایاں اور نامور شخصیت تھے۔سیاست میں انہوں نے بہت نام کمایا اور لوگوں کی محبتیں بھی حاصل کیں۔ آج کا بلوچستان ان شہیدوں کی قربانی کا ثمر ہے جنہوں نے بلوچستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا۔
ابتداء میں بلوچستان میں ایک اجتماعی لیڈر شپ موجودتھی۔ا ن میں میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری‘ سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی نمایاں تھے۔ ان میں سے دو رہنماؤں کو ملک اور دنیا بھر میں زبردست پذیرائی ملی، وہ بین الاقوامی میڈیا پر چھائے رہے اور بلوچستان کا مقدمہ زبردست انداز میں لڑتے رہے یہ شخصیات تھے میرغوث بخش بزنجو اور نواب اکبرخان بگٹی ۔
جہاں تک نواب بگٹی کا تعلق ہے انہوں نے ون یونٹ کے خاتمے کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا ، وہ سالوں جیلوں میں رہے اور کبھی سودے بازی نہیں کی۔ جیل کے اندر ان کی بھوک ہڑتال تاریخی تھی جس پر پورے پاکستان میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ ان کو رہا کیا جائے۔
ایوب خان ون یونٹ اور مشرقی پاکستان کے درمیان برابری کو بچانے کے لئے آئے تھے۔مغربی پاکستان اسمبلی نے ون یونٹ توڑنے کی قرار داد پاس کر لی تھی ،اس پر عمل درآمد سے پہلے ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا۔اپنے پورے دور میں ایوب خان ان پارٹیوں اور لیڈروں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے جو ون یونٹ کے مخالف تھے۔ ان میں صف اول میں نواب بگٹی بھی تھے بلکہ ایوب خان کو نواب بگٹی سے ذاتی عناد تھا اس لئے ان کے خلاف زیادہ سخت کارروائی کی گئی۔
یہی عالم جنرل پرویزمشرف کا تھا وہ نواب بگٹی اور دوسرے بلوچ رہنماؤں سے اس لئے نفرت کرتے تھے کہ وہ جنرل صاحب جو بیک وقت کماندار اعلیٰ اور صدر پاکستان بھی تھے ان کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ جنرل مشرف ضرورت سے زیادہ اپنی ذات کو اہمیت دیتے تھے اور باقی تمام پاکستانیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے تھے۔
مشرف دور کی غلط پالیسیوں اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت نے بلوچستان کا سیاسی نقشہ ہی بدل کررکھ دیا ، اس طرح کچھ سالوں تک حالات انتہائی خراب رہے۔ ملک کے سیاسی قائدین سے لیکر ہر مکتبہ فکر نے نواب اکبرخان بگٹی پر حملے کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کے خلاف ہر فورم پر آواز بھی بلند کی۔
نواب اکبرخان بگٹی کی سیاسی تاریخ دوٹوک رہی ہے مگر اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ نواب اکبرخان بگٹی ہمیشہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے ۔سیاسی تحریکوں میں شامل ہوکر انہوں نے جہاں بلوچستان کے عوام کی مظلومیت کا پرچار کیا وہیں فیڈریشن کی مضبوطی کیلئے بھی کوشاں رہے ۔
نواب اکبرخا ن بگٹی بلوچستان کے ان چیدہ سیاسی قائدین میں سے ہیں جنہیں بین الاقوامی سیاست پر بھی زبردست عبور حاصل تھا، ان کا شمارپڑھے لکھے لیڈروں میں ہوتا تھا۔ نواب اکبر خان بگٹی نے 1947ء میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا کلچر، روایات پاکستان سے ملتے ہیں ۔
بعد ازاں وفاق کی دوغلی پالیسیوں نے بلوچستان کے عوام اور لیڈر شپ کو اسلام آباد سے بدظن کردیا ،بلوچستان کو جس نظر سے دیکھنے کی ضرورت تھی اس پہلوپر کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی بلکہ بلوچستان کے لیڈران کے مطالبات کو ہمیشہ غداری سے منسوب کیا گیا جس کی وجہ سے بلوچستان اور مرکز کے درمیان فاصلے بڑھتے رہے ۔
نواب اکبرخان بگٹی بلوچستان کے صوبائی اور پاکستان کے وفاقی اہم عہدوں پر فائز رہے اور ان کی ہمیشہ یہی جدوجہد رہی کہ بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے یہاں کے وسائل پر مکمل طور پر بلوچستان کے نمائندوں کو حق حاصل ہو اور وہ اس حوالے سے فیصلوں سمیت قانون سازی کرسکیں ۔
نواب اکبرخان بگٹی کی سیاسی زندگی کبھی بھی پُرتشدد نہیں رہی مگر بدقسمتی سے مشرف کے متکبرانہ رویے اور جنگی جنون نے نواب اکبرخان کو پہاڑوں پر جانے پر مجبور کیا اور اس طرح تراتانی کے غار میں نواب اکبرخان کی شہادت ہوئی جسے آج بھی بلوچستان سمیت پاکستان کا ہر طبقہ غلط اقدام قرار دیتا ہے ۔ آج بلوچستان کو جس حد تک قانونی طور پر حقوق ملے ہیں ان میں نواب اکبرخان بگٹی جیسے عظیم لیڈرکی جدوجہد شامل ہے ۔
نواب بگٹی کی 12ویں برسی
وقتِ اشاعت : August 26 – 2018