کوئٹہ:قلعہ عبداللہ میں کوئٹہ چمن شاہراہ پر قبائلی رہنماء صادق عدوزئی کے قافلے پر مسلح افراد نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک راہ گیر جاں بحق ہوگیا۔ حملے میں صادق عدوزئی کا بھائی، لیویز اہلکار اور محافظوں سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے۔
واقعہ کے بعد دو طرفہ فائرنگ کے باعث کوئٹہ چمن شاہراہ میدان جنگ بن گئی۔ شاہراہ کو ٹریفک کیلئے بھی بند کردیا گیا۔لیویز کے مطابق قبائلی رہنماء صادق عدوزئی کے قافلے پر قلعہ عبداللہ کے علاقے چوڑی مسے زئی کے مقام پر کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ پر گھات لگائے مسلح افراد نے اچانک حملہ کردیااور قافلے میں شامل گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ اس دوران راکٹ لانچر، لائٹ مشین گن اور دیگر بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیاگیا۔
متعددراکٹ کے گولے داغے گئے جن میں سے ایک گولہ قافلے میں شامل ایک گاڑی کو لگا اور وہ تباہ ہوگئی۔ فائرنگ اور راکٹ حملے میں ایک راہ گیر محمد ہاشم ولد عبدالنبی کاکوزئی جاں بحق جبکہ پانچ افراد زخمی ہوگئے۔
زخمی ہونیوالوں میں لیویز شفیع محمد اور صادق عدوزئی کے بھائی نور خان عدوزئی ، دو ذاتی محافظ شین گل اور محمد صدیق کے علاوہ تیرہ سالہ راہ گیر محمد اجمل شامل ہیں۔ زخمیوں کو فوری طور پر کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔
صادق عدوزئی ذاتی محافظوں ،لیویز اور ایف سی اہلکاروں کی حفاظت میں چمن سے کوئٹہ جارہے تھے۔ وہ خود اس حملے میں محفوظ رہے۔ حملے کے بعد صادق عدوزئی کے محافظوں اور حملہ آوروں کے درمیان شدید فائرنگ ہوئی۔ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں کوئٹہ چمن شاہراہ میدان جنگ بن گئی۔ فائرنگ سے علاقے میں خوف و ہراس بھی پھیل گیا۔
کوئٹہ اور چمن کے درمیان ہر قسم کی آمدروفت بھی معطل ہوگئی۔ حملے کے بعد صادق عدوزئی واپس قلعہ عبداللہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ طفیل بلوچ اور ایف سی کے کرنل سلیم کی سربراہی میں لیویز اور ایف سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور صورتحال پر قابو پالیا۔
مقتول محمد ہاشم کی لاش اور پانچ زخمیوں کو سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق مقتول محمد ہاشم کاکوزئی کو سر پر برسٹ لگا جس سے ان کے سر کا ایک حصہ اڑ گیا اور موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔
160 زخمیوں میں لیویز اہلکار محمد شفیق کو بائیں ہاتھ میں، نور خان عدوزئی کو پیٹ میں ، شین گل کو تھوڑی اور محمد صدیق کو پیٹ میں گولی لگی ہے۔ راہ گیر تیرہ سالہ محمد اجمل کو ٹانگ میں گولی لگنے سے زخم160 آیا ہے۔ تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل صادق عدوزئی اور ایک اور مقامی قبائلی رہنماء کی ٹیلیفون پر تلخ کلامی بھی ہوئی تھی جس میں دونوں نے ایک دوسرے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ اسی رنجش کا شاخسانہ ہے۔